سپاہِ پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈر نے کہا ہے کہ ایران جنگ کی جانب نہیں بڑھ رہا ہے، مگر وہ کسی تنازع سے خوف زدہ بھی نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر بغداد میں امریکی سفارت خانے پرحملے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ل کہ ایران ہی کو عراق میں امریکی تنصیبات پر حملوں کا ذمے دار گردانا جائے گا مگر ایران نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم کے مطابق پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی نے کہا ہے کہ ’’ہم ملک کو جنگ کی جانب نہیں دھکیل رہے ہیں لیکن ہم کسی جنگ سے خوف زدہ بھی نہیں،ہم امریکیوں سے یہ کہتے ہیں کہ ایرانی قوم سے درست انداز میں بات کی جائے۔ہم انھیں کئی مرتبہ توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ہم مشوّش نہیں ہیں۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اگر عراق میں ہماری کسی تنصیبات پر جانیں ضائع ہوتی ہیں یا کوئی مالی نقصان ہوتا ہے تو ایران ہی کو اس کا مکمل ذمے دار گردانا جائے گا۔انھیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔یہ کوئی انتباہ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔
انھوں نے بعد میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی جنگ چاہتے ہیں اور نہ اس کی پیشین گوئی کررہے ہیں۔
دریں اثناء ایران کے آرمی چیف میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے کہاہے کہ ان کی فورسز دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے تیار ہیں۔ہماری مسلح افواج تمام نقل وحرکت کی نگرانی کررہی ہیں۔اگر کسی نے معمولی سی بھی غلطی کی تو پھر فیصلہ کن ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔اگر صورت حال مزید بگڑتی ہے تو پھر ہم دشمن پر اپنی صلاحیتیں ظاہر کردیں گے۔‘‘
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو ایک بیان میں عراق میں اپنے ملک کی اتحادی ملیشیاؤں پر امریکا کے حملوں کی مذمت کی تھی۔انھوں نے امریکا پر ایران کے ہمسائے میں تشدد کا الزام عاید کیا تھا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے گذشتہ روز تہران میں سوئس سفیر کو بھی طلب کیا تھا اور ان سے امریکی عہدے داروں کے جنگی مہم جوئی کے لیے اشتعال انگیز بیانات پر احتجاج کیا تھا۔واضح رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں اور تہران میں سوئس سفارت خانہ ہی امریکی مفادات کی دیکھ بھال کا ذمے دار ہے۔