جنگی حکمتِ عملی | قسط 33 – آگ سے حملہ

377

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 33 – آگ سے حملہ

آگ سے حملے کی پانچ قسمیں ہیں‘ جن میں فوجی سپاہیوں کو آگ لگانا‘ اشیائے خوردونوش کوآگ لگانا‘ سازو سامان کو آگ لگانا‘ اسلحہ خانے کو آگ لگانا اور ذرائع آمدورفت کو آگ لگانا شامل ہیں۔ آگ لگانے کا سازوسامان ہاتھ میں ہونا چاہئے‘ آگ لگانے کیلئے مناسب وقت اور دن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے‘ مناسب وقت کے معنی یہ ہیں کہ جب موسم سخت گرم اور جھلسا دینے والا ہو‘ دن کا مطلب ہے جب چاند برج قسو الفاراز تاروں کے جھرمٹ میں ہو‘ اس وقت تیز ہوائیں چلتی ہیں۔

یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جنگ میں آگ کے حملوں کے دوران تبدیل شدہ حالات کی طرف دھیان دینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔

جب دشمن کی فوجی چھاؤنی میں آگ بھڑک اٹھے تو آپ باہر سے جلد ہی مشترکہ حملے کا آغاز کردیں‘ اگر دشمن کے سپاہی خاموش ہوں تو آپ کو کسی مناسب وقت کا انتظار کرنا پڑے گا اور ایک دم حملہ نہیں کرنا ہوگا‘ جب آگ بھڑک اٹھے تو آپ حملہ کردیں‘ اگر نہیں کرسکتے تو تھوڑی دیر انتظار کرلیں اگر آپ دشمن کے فوجی کیمپ کے اندر آگ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں تو آپ کو فوجی کیمپ کے اندر آگ لگنے تک رکنا نہیں چاہئے‘ فوجی کیمپ کو آگ لگانے کیلئے مناسب وقت کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ آگ‘ ہوا کے رخ کو دیکھ کر لگانی چاہئے اور بالائی سطح سے دینی چاہئے‘ لیکن ہوا کے نچلے رخ سے آگ نہیں لگانی چاہئے اور حملہ بھی ہوا کی بالائی سطح سے کرنا چاہئے‘ جب ہوا دن میں تیز چلتی ہے تو رات میں کچھ سست رفتار ہوجاتی ہے‘ سپاہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ آگ لگانے کیلئے پانچ حالتوں سے واقف ہو اور اسے مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔

جو سپاہ اپنے حملوں کو مضبوط بنانے کیلئے آگ سے بھی کام لے گی اسے خاطر خواہ کامیابیاں ملیں گی‘ جب کوئی سپاہ دریا میں شگاف ڈال کر دشمن کے ٹھکانے ڈبونے کا بندوبست کرتی ہے تو اسے دشمن کے کیمپ کو آگ لگانے سے بھی زیادہ فائدہ پہنچتا ہے‘ پانی دشمن کو اکیلا کردیتا ہے لیکن عسکری سامان اور اشیائے خوردونوش کا اس قدر زیاں نہیں ہوتا‘ پانی کی نسبت آگ زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔

اس لئے جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے آپ ان باتوں پر عمل نہیں کرتے اور اپنی کامیابیوں کو یقینی نہیں بناتے تو یہ ایک قسم کی بدشگونی ہوتی ہے جسے وقت کا زیاں بھی تصور کیا جاتا ہے‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ عقلمند حکمران بہترین منصوبہ بندی کے بعد جنگ کی شروعات کرتے ہیں اور دانشمند جرنیل اس منصوبہ بندی کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اگر ایسی منصوبہ بندی ملکی مفاد میں نہیں ہوتی ہے تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے‘ جب آپ کوئی خوف اور خطرہ محسوس نہیں کرتے تو جنگ نہ کریں‘ ایک حکمران کو اس لئے جنگ شروع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ دشمن ملک پر غصہ ہے اور جرنیل کو اس لئے جنگ نہیں کرنی ہے کہ وہ کسی ملک کے ساتھ اختلاف رائے رکھتا ہے‘ اس لئے کہ غصیلے آدمی کے دل سے غصہ اتر بھی جاتا ہے اور اختلاف رائے رکھنے والا جرنیل کبھی اسی ملک سے راضی بھی ہوجاتا ہے لیکن جنگ کے باعث ریاستوں کو جونقصان پہنچتا ہے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی جنگوں میں مارے جانے والے لوگ زندہ ہوسکتے ہیں‘ اس لئے ایسا روشن ضمیر حکمران جو جنگ کے نتائج سے واقف اور تیز فہم ہے اسے جرنیل کو تنبیہ کرنی چاہئے کہ ایسے نقصان دہ کام سے احتیاط برتیں‘ یوں ملک محفوظ ہوجائے گا اور فوج بھی بچ جائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔