جنگی حکمتِ عملی | قسط 30 – نومختلف باتیں

516

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 30 – نومختلف باتیں

عام طور پر فوج میں ملازم رکھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کا حکمران‘ کمانڈر کو فوج بھرتی کرنے اور لوگوں کو جمع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

آپ کو ایسی جگہ پر ٹھکانہ نہیں بنانا چاہیئے‘ جو جنگ کے میدان سے دور ہو‘ آپ اپنے اتحادیوں سے ایسی جگہ پر ملیں‘ جہاں آمدورفت کے راستے زیادہ ہوں۔ کسی ویرانے میں سست روی سے پیش قدمی نہ کریں جس میدان کے چاروں اطراف پہاڑیاں ہوں‘ وہاں دشمن کو جھانسہ دینے کی کوشش کریں‘ جس میدان پر موت ہی موت نظر آئے وہاں دشمن سے دو‘ دو ہاتھ کرنے کیلئے سر دھڑکی بازی لگادیں۔

کچھ ایسے راستے بھی ہوتے ہیں جہاں سے نکلنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ دشمن کے بعض فوجی یونٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں حملہ نہیں کیا جاتا۔ بعض شہروں پر حملہ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے‘ بعض مواقع ایسے بھی آجاتے ہیں کہ بادشاہ کے احکامات کی پیروی نہیں کی جاسکتی‘ اس لئے ایک جرنیل کو 9 مختلف باتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے حالات سے بخوبی واقف ہونا چاہیئے تاکہ وہ اپنی فوج کو اچھی طرح استعمال کرسکے‘ اگر کوئی جرنیل ان نو باتوں سے فائدہ اٹھانے کے فن سے واقف نہیں ہے تو وہ مقامی جغرافیہ سے واقفیت کے باوجود بھی اس کی خوبیوں سے مستفید نہیں ہوپائے گا۔

فوجی کارکردگی کے نقطہ نظر سے اگر جرنیل ان 9 باتوں کے مطابق جنگی چال کو سمجھ نہیں سکے گا تو وہ اپنی فوج کو مناسب انداز میں استعمال ہی نہیں کرپائے گا۔ خواہ اسے ان پانچ سہولتوں سے متعلق مکمل علم بھی ہو‘ جنہیں آغاز میں بیان کردیا گیا ہے۔

ایک فہمیدہ جرنیل کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ جنگی منصوبہ طے کرتے ہوئے اس کی خوبیوں اور خامیوں سے متعلق بھی سوچ بچار کرے‘ خوبیوں کی بات پر سوچ بچار کرکے اس منصوبے کو قابل عمل بنایا جاسکتا ہے‘ خامیوں پر غور کرنے سے فوج کو بعض امکانی خطرات سے بچایا جاسکتا ہے‘ وہ جو یہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے سو اس آڑ میں وہ ان سے ہمیشہ فریب کرتا رہتا ہے‘ حکمران جو یہ چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ ان پر قابض رہوں تو وہ مستقل قبضہ جاری رکھنے کیلئے سرگرداں ہوتا ہے اور کوئی حکمران اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے سامنے دست بستہ ہوکر آبیٹھیں تو پھر اسے انہیں سہولتیں دینا ہوں گی۔

جنگ کا یہ بھی اصول ہے کہ دشمن سے متعلق کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ وہ مقابلہ پر نہیں آئے گا بلکہ یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ ضرور آئے گا اور اس کا سامنا کرنے کیلئے بھر پور طور پر تیار رہنا چاہیئے اور نہ ہی یہ فرض کرلینا چاہیئے کہ دشمن ہمارے ملک پر حملہ آور نہیں ہوگا بلکہ اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو ناقابل شکست بنانا چاہیئے۔

جرنیل میں پانچ خوبیاں ضرور ہونی چاہئیں‘ اگر وہ کسی بات پر غور و فکر نہیں کرے گا تو قتل ہوجائے گا‘ اگر بہادر نہیں ہوگا تو جنگی قیدی بن جائے گا‘ اگر وہ تیز رو اور غصیلا ہوگا تو دشمن اسے غصہ دلا کر آپے سے باہر کردے گا‘ اگر وہ نازک اور نفیس ہوگا تو اس میں عزت نفس ہوگی اور دشمن اسے پلک جھپکتے میں ذلیل کردے گا‘ اگر وہ رحمدل ہوگا تو اسے جلد دہلایا جاسکے گا۔

مندرجہ بالا پانچوں باتیں جرنیل کیلئے عیب کی طرح ہیں اور جنگ کے دوران ایسی خامیاں انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں‘ ان خامیوں کے باعث جرنیل کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے‘ ایسی خامیوں پر سوچ بچار کرنا نہایت لازمی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔