دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 29 – عسکری نقل وحرکت‘ جنگی ترتیب اور چال
یہ ایک عام بات ہے کہ جنگ کے دوران فوجی کمانڈر کو اپنے ملکی سربراہ سے بعض احکامات ملتے رہتے ہیں‘ فوج کو مختلف مقامات سے لاکر ایک جگہ پہ جمع کرنا‘ عوام کو اکٹھا کرنا اور انہیں سپاہ سے ملا کر ایک کرنا اور فوجی کیمپ میں رہائش پذیر کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اس سے بڑھ کر جنگی نقطہ نگاہ سے اہم‘ محل وقوع کیلئے فوجی نقل وحمل‘ جنگی ترتیب اور چال انتہائی کٹھن مرحلہ ہے‘ نیز نقصان کو فائدے میں بدلنے کا موقع بھی۔ اس سے بھی مشکل کام ہوگا ٹیڑھے میڑھے راستے پر سیدھا سفر کرنا اور ہر مشکل کو آسان بنانا۔ یوں ایک سمت کا رستہ اختیار کرکے دشمن کو فریب دے کر اس کے سفر کا رخ تبدیل کرکے جنگ کے میدان میں اس سے قبل پہنچ جانا بھی اہم ہوتا ہے‘ اگر کوئی کمانڈر ایسا کرنے میں فتح یاب ہو جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ دشمن کے سفر میں اس کا رخ بدلنے کے فن میں ماہر ہے۔
کسی سہل محل وقوع کے حصول کیلئے اختیار کردہ جنگی ترتیب‘ چال اور فوجی نقل وحرکت میں سہولت کے ساتھ‘ ساتھ بے انتہا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے‘ ایک آدمی جو آسان محل وقوع کے حصول کیلئے بڑی بڑی رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود اپنی پوری فوج کے ساتھ پیش قدمی کرتا ہے تو اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملتی۔ اگر ایسی سہولت کے حصول کے لئے وہ فوجی محل وقوع کو چھوڑ دے گا اور اس کے راستے میں بے انتہارکاوٹیں موجود ہوں گی تو اس کی اشیائے خوردونوش کے ساتھ فوجی سامان بھی ختم ہوجائے گا لیکن اگر کوئی (سپہ سالار) اپنی فوج کو ہتھیاروں اور اسلحے کی تیز رفتاری کے بغیر سفر کرنے کا حکم دے دے اور دن رات ایک کرکے ایک ہی سانس میں عام فاصلے سے دگنا فاصلہ طے کرکے ایک سو ”لی“ مفاصلہ طے کرکے دشمن سے آسان محل وقوع چھین لیتا ہے تو عین ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے کمانڈروں کی گرفتاری عمل میں آجائے‘ طاقتور میدان جنگ میں جلد پہنچتا ہے جبکہ کمزور پیچھے خود کو گھسیٹتا ہوا آتا ہے‘ اگر تیز رفتاری سے سفر کیا جائے گا تو اصل فوج کا دسواں حصہ منزل پر پہنچ پائے گا۔ پچاس ”لی“ کے تیز رفتار سفر میں ہراول دستے کا کمانڈر گر بھی سکتا ہے لیکن فوج کا نصف حصہ منزل مقصود تک پہنچ ہی جائے گا‘ اگر تیز رفتاری سے تیس لی کا سفر طے کیا جائے گا تو تمام فوج کے 2 چوتھائی حصے کے پہنچنے کا امکان ہوتا ہے‘ ان باتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر اس فوج کے پاس مکمل فوجی سامان‘ اشیائے خوردونوش اور مال برداری کے جانداروں کیلئے چارہ کم ہوگا تو وہ تباہ ہوجائے گی۔
ملک کا حکمران اگر ہمسایہ ممالک سے واقف نہیں تو ان کے ساتھ اتحاد نہ کرے‘ اگر فوجی سپاہ سالار کو پہاڑی علاقوں کے حالات جنگلات‘ جھیلوں اور جوہڑوں‘ کنوؤں‘ آبشاروں اورنالوں سے متعلق کوئی علم نہیں تو پیش قدمی کے دوران وہ فوج کی رہنمائی نہیں کرپائے گا اگر کسی مقامی رہنماء کو ساتھ نہیں لے گا تو سفر کے دوران زمین کی آسان سطح پر سفر نہیں کرسکے گا۔ جنگ کی بنیاد دھوکے پر ہوتی ہے‘ اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے پیش قدمی کرنی چاہئے۔ صورتحال کے مطابق فوج کو پھیلائیں اور یکجا کریں‘ جب آپ جنگی مہم پر نکلیں تو آندھی طوفان کی سی رفتار اختیار کریں اور دھیرج کے سفر میں آن بان اور شان سے چلیں۔ لوٹ مار کے دوران آگ سی قوت رکھیں اگر ایک جگہ رکتے ہیں تو پہاڑ کی طرح مضبوط اور اٹل ہوکر ڈٹے رہیں‘ اگر آپ دشمن کی نظروں سے پوشیدہ رہنا چاہتے ہیں تو یوں اوجھل ہوجائیں جیسے کوئی گہرے بادلوں کے پیچھے چھپ جائے لیکن جب آپ پیش قدمی کر رہے ہوں تو بجلی کے کوندے کی طرح دکھائی دیں جب آپ کسی قصبے سے مال غنیمت لوٹیں تو اسے لشکر میں تقسیم کردیں جب کسی علاقے کو فتح کریں تو اس کے اہم تاریخی مقامات کا تحفظ کریں‘ پیش قدمی سے قبل ماحول کو اچھی طرح پرکھ کر اس کا جائزہ لے لیں جو آدمی دشمن فوج کا رخ تبدیل کرنے میں ماہر ہے وہ جنگ میں ضرور فتح یاب ہوگا‘ یہی فوجی نقل و حرکت‘ جنگی ترتیب اور چال کا فن ہے۔
”ملٹری ایڈمنسٹریشن“ نامی کتاب میں بیان ہے کہ:”جنگ میں کوئی آواز سنی نہیں جاسکتی اس لئے ڈھول‘ نقادہ اور گھڑیال بجائے جاتے ہیں‘ جنگ کے دوران فوجی یونٹ بھی ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ نہیں پاتے ہیں اسی لئے جھنڈے اور نشان استعمال کئے جاتے ہیں۔“ آج کل ڈھول‘ نقادہ‘ نشان اور جھنڈے اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ فوجیوں کے عمل میں ہم آہنگی ہو کیونکہ فوجیں اگر اس طرح سے متحد ہوں گی تو بہادر فوجی علاقے کی جانب آگے بڑھ کر رعب نہیں جماپائے گا اور نہ ہی بزدل فوجی جنگ سے دستبردار ہو سکیں گے۔ یہ فوج کی بڑی تعداد کو جنگی ہدایات دینے کا فن ہے‘ رات کی جنگ میں زیادہ شمعدان اور ڈھول استعمال میں آتے ہیں‘ دن میں ہونے والی جنگ میں جھنڈوں اور نشانات کو استعمال میں لانا ضروری ہے تاکہ فوجی اپنی آنکھوں اور کانوں سے جنگی سرگرمی کو دیکھ اور سن سکیں۔
(مخالف کی طرف سے) فوج کے حوصلوں کوختم کرنے اور کمانڈر کے اعتماد کو تباہ وبرباد کرنے کے جتن کئے جاتے ہیں۔ جنگ کے شروعاتی مراحل میں فوج کے حوصلے بلند ہوتے ہیں مگر تھوڑے ہی وقت کی لڑائی کے بعد ان کی جنگی سرگرمیاں ماند پڑنے لگتی ہیں اور انہیں گھر یاد آنے لگتے ہیں اس لئے جنگ کے استاد اور ماہر بھی اس سے اکثر کتراتے ہیں‘ جب فوج کے حوصلے بلند ہوتے ہیں تو ان پر جنگی جنون سوار ہوتا ہے اور جب دل ہار بیٹھتے ہیں تو سست اور کاہل ہوجاتے ہیں اور گھر کی یاد انہیں ستانے لگتی ہیں‘ یہ اخلاق پر قابو قائم رکھنے کا معاملہ ہے۔ جب ان میں نظم و ضبط ہوتا ہے تو بدنظمی کے شکار دشمن کو ختم کرنے کیلئے ابل رہے ہوتے ہیں‘جنگ نہیں ہوتی تو انتشار زدگی میں مشغول رہتے ہیں‘ یہ ذہن پر قابو رکھنے کا معاملہ ہے۔ جب یہ فوج جنگ کے میدان کے قریب ہوتی ہے تو دور سے آنے والے دشمن پر اچانک حملے کے انتظار میں رہتی ہے‘ جب وہ آرام کرتی ہے تو تھکے ہوئے دشمن پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اس فوج کے پاس جب اشیائے خوردونوش وافر مقدار میں ہوتو وہ بھوکے دشمن پر حملے کیلئے موقع تلاش کرتی ہے‘ یہ مزاج پر ضابطے کا معاملہ ہے۔ وہ ایسے دشمن کو نہیں چھیڑتے ہیں جو منظم انداز میں پیش قدمی کررہا ہوتا ہے اور نہ ہی اسے چھیڑتے ہیں جس کی فوجی ترتیب موثر ہوتی ہے‘ یہ تبدیل ہوتے حالات پر قابو رکھنے کاعنصر ہے۔
فوج کو ترتیب میں رکھنے کا فن یہ ہے کہ جب دشمن پہاڑ پر ٹھکانہ کئے بیٹھا ہو تواوپر جاکر اس سے اٹکا نہ جائے‘ جب دشمن فوج کا ہر اول دستہ پہاڑ پر محو استراحت ہوتو پیش دستوں پر حملہ کرنا غلط اقدام ہوگا‘ اگر دشمن بھاگنے / پیٹھ دکھانے کا ڈھونگ کررہا ہے تو اس کا پیچھا نہ کریں‘ اگردشمن فوج کے حوصلے بلند ہیں تو اس پر حملہ نہ کریں‘ اگر دشمن آپ کو للچا کر دھوکہ دینے کی کوشش کررہا ہے تو آپ اس کے ایسے دھوکے میں آنے سے بچیں‘ اگر دشمن اپنے گھر کی جانب واپس ہونے کو پیچھے ہٹ رہا ہے تو اس کے سامنے نہ آئیں‘اگر کسی دشمن کا گھیراؤ کریں تو بھاگتے ہوئے دشمن کو جانے کیلئے راستہ دیں‘ جان جوکھم میں ڈالنے والے دشمن کو حد سے زیادہ تنگ نہ کریں۔ جنگ میں فوج سے کام لینے کا یہی فن ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔