جنگی حکمتِ عملی | قسط 27 – دشمن کا عسکری ڈھانچہ اور ترتیب

451

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 27 – دشمن کا عسکری ڈھانچہ اور ترتیب

عام طور پر بڑی فوج کا انتظام تھوڑے لوگوں کا انتظام رکھنے جیسا ہوتا ہے اور یہ تنظیمی معاملے سے متعلق ہوتا ہے۔ ایک بڑی فوج کو بھی اسی طرح منظم کیا جاسکتا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فوج دشمن لشکر سے شکست کھائے بنا حملے کا دباؤ برداشت کرلے گی۔

ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ خاص اور عام فوج کی جنگی سرگرمی بہتر ہوتی ہے‘ فوج دشمن پر یوں زور سے حملہ کرتی ہے جس طرح ایک وزنی پتھر کو اوپر سے پھینکا جاتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ کسی سخت چیز کو کو ایک خالی چیز پر پھینکا جائے۔

جنگ میں عام قسم کی فوج کو دشمن سے لڑنے کیلئے مقرر کیا جائے اور خاص قسم کی فوج فقط فتح کے مقاصد کیلئے استعمال کی جائے‘ خاص قسم کی فوج کو استعمال کرنے کیلئے وسائل‘ زمین اور آسمان گویا وسیع و بڑے دریاؤں کی طرح لامنتہا ہوتے ہیں کیونکہ وہ ختم ہو کر پھر خود بخود بہنا شروع ہوجاتے ہیں چاند اور سورج کی طرح ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں وہ ختم ہوتے اور پھر پیدا ہوتے ہیں‘ گزشتہ موسم کی طرح جو پھر لوٹ آتا ہے‘ گائیکی کے مرکزی پانچ سر ہیں لیکن ان کے میلاپ سے بے شمار سر پیدا ہوتے ہیں جنہیں کوئی سن نہیں پاتا‘ اسی طرح خاص و عام اشیائے خوردونوش کے میلاپ سے بے شمار ذائقے جنم لیتے ہیں جنہیں آدمی چکھ نہیں سکتا۔ جنگ میں بھی فقط عام و خاص قسم کی فوج ہوتی ہے لیکن انہیں (باہم) ملانے سے فوج کے بے شمار نمونے جڑتے ہیں جنہیں کوئی سمجھ بھی نہیں پاتا ہے کیونکہ دو قسموں کی یہ فوج‘ فوجی یونٹوں کے بے شمار نمونوں کو جنم دیتی ہے‘ وہ ایک قسم کے لامحدود دائرے میں گھومتی رہتی ہے‘ کیا ان کے میلاپ کی قوت کو ختم کرنے کا امکان ہے؟!

پہاڑ کی چوٹی سے بہنے والی آبشار بڑے بڑے پتھروں کو دور پھینک دیتی ہیں اس لئے کہ ان کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے‘ جب باز تیز رفتاری کے ساتھ اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کے جسم کی ہڈی‘ ہڈی توڑ ڈالتا ہے اس لئے کہ یہ حملہ وقت کی تیز رفتاری کا عمل ہوتا ہے‘ جنگی ماہر کے لئے تیز رفتاری انتہائی اہم ہوتی ہے اور اس کا حملہ انتہائی بروقت ہوتا ہے‘ اس کی امکانی قوت زور سے کھینچی گئی کمان کی طرح اور اس کی رفتار دبائے گئے ٹریگر کی طرح انتہائی تیز ہوتی ہے۔

انتشار اورفسادات میں جنگ بھی بدنظمی اور انتشارر کا شکار ہوجاتی ہے لیکن جرنیل کے فوجی یونٹوں میں بدنظمی نہیں ہونی چاہئے جنگی میدان میں بھلے بدنظمی اور انتشار ہولیکن فوج میں نظم وضبط ہونا ضروری ہے۔

اس سے ثابت ہوجائے گا کہ آپ شکست نہیں کھائیں گے‘ ظاہر ہونے والی پیچیدگی بہتر نظم و ضبط کی پیداوار ہوتی ہے‘ کھوکھلی بہادری سے بزدلی اور کھوکھلی طاقت سے کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ نظم و ضبط‘ بدنظمی و انتظام‘  کا دارو مدار جرنیلوں کے احکامات پر ہوتا ہے‘ بہادری اور بزدلی کا تعلق حالات سے وابستہ ہوتا ہے۔ طاقت و کمزوری‘ جنگی چال اور فوجی ترتیب و تقسیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک دانشمند کمانڈر اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق دوست فوج کو ورغلانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی لالچ دے کر دھوکہ کرکے اسے پیش قدمی پر اکساتا ہے جس کے بعد وہ اپنی منتخب بہادر فوج لے کر مناسب مقام پر جاکر حملہ آور ہوتا ہے۔

اس لئے ایک ماہر کمانڈر اپنے ماتحت‘ عملداروں سے فتح کا تقاضا نہیں کرتا ہے بلکہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے وہ خود منتخب فوجی ساتھ لے کر حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے‘ صورتحال کے مطابق کام کرنے اور اپنے لوگوں کو جنگ میں درست انداز میں استعمال کرنے والا جرنیل ایسا کام کرتا ہے گویا پہاڑ کی چوٹی سے درختوں کے بڑے بڑے تنے یا بڑے پتھر نیچے پھینکتا ہو‘ درختوں کے تنے اور بڑے پتھر مضبوط دھرتی پر اِدھر اُدھر نہیں ہوتے ہیں لیکن نشیب کی جانب لڑھکنا شروع کرتے ہیں‘ تنا اور پتھر اگر چوکور ہوگا تو نشیب کی جانب نہیں سر کے گا اگر گول ہوگا تو گھوم جائے گا‘ اگر جنگ میں فوجی طاقت کو دانشمندی سے استعمال کیا جائے گا تو ایسا محسوس ہوگا گویا ہزاروں فٹ کی اونچائی سے گول قسم کے بڑے پتھروں کو نیچے پھینکا جارہا ہو۔ وہ تیز رفتاری کے ساتھ جہاں بھی جائیں گے‘ ہرشے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔