دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 26 – عسکری منصوبہ اور وسعت
قدیم زمانے میں دانشمند جنگجو پہلے خود کو ناقابل شکست بناتے تھے اور پھر دشمن کے کمزور ہونے کا انتظار کرتے تھے‘ ناقابلِ شکست ہونے کا انحصار اپنے آپ پر ہے جبکہ دشمن کے کمزور ہونے کا تعلق اُسی سے ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشمند جنگجو خود کو تومضبوط کرسکتے ہیں لیکن وہ اپنے دشمن کو کمزور نہیں کرسکتے ہیں‘ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ کمانڈر کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ فتح کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ فتح حاصل کربھی لیں۔
جب آپ دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو آپ خود کو بچانے کی کوشش کریں‘دشمن پر حملہ فقط اس وقت کریں جب آپ یہ سمجھیں کہ آپ اس پر حملہ کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔
جرنیل اپنا بچاؤ تبھی ڈھونڈتا ہے جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی طاقت نامکمل ہے‘ اس لئے وہ حملہ فقط تبھی کرتا ہے جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس انتہائی زیادہ طاقت ہے‘ جو جرنیل اپنے دفاع کے ماہر ہوتے ہیں وہ یوں جاکر چھپ جاتے ہیں گویا وہ دھرتی کی نو (9) تہوں کے نیچے جا کر اپنا دفاع کرلیتے ہیں (قدیم چین میں نو کے عدد کوعدد کو اہمیت حاصل تھی) اگر حملہ کیا جائے تو یوں کیا جائے کہ ایسا سمجھا جائے جیسے 9 منزلوں (آسمانوں) سے گویا بجلی گری ہے‘ یوں اپنا دفاع بھی ہوتا ہے اور فتح بھی حاصل کرلی جاتی ہے۔
ایک جرنیل کو عام آدمی کی طرح فتح کی پیش گوئی نہیں کرنی چاہئے اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کی دانشمندی نہیں کہلائے گی۔ اگر آپ نے کوئی جنگ جیتی ہے تو آپ کو دنیا کا ”جنگی ماہر“ گرداننا غلط ہے‘ اگر آپ خزاں پر قابو پالیں گے تو یہ آپ کی طاقت کی علامت نہیں ہے‘ سورج اور چاند کا تقابل کرنا آپ کے نور بصیرت کا نتیجہ نہیں ہے‘ آسمانی بجلی کی آواز سن کر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آپ کے کان بہت سریلے ہیں‘ قدیم عہد کی ایک ضرب المثل ہے کہ جو جنگی ماہر دشمن کو آسانی سے فتح کرلیتے ہیں وہ خود بھی باآسانی فتح ہوجاتے ہیں‘ اس لئے جنگ جیتنے والا ماہر نہ تو دانشمند کہلاتا ہے اور نہ خود کو دلیر سمجھتا ہے‘ اس لئے کہ وہ غلطی کئے بناء فتح حاصل کرلیتا ہے‘اسے فتح کا یقین اس لئے ہوتا ہے کہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہوتی ہے۔
اس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس نے ایک ایسے دشمن پر فتح حاصل کی ہے جو جنگ لڑنے سے قبل ہارچکا ہے اس لئے ایک عسکری کمانڈر ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں اسے شکست نہ دی جاسکے اور وہ کبھی بھی دشمن پر غلبے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا‘ اس لئے فاتح فوج ہمیشہ منصوبہ بندی کے مطابق لڑتی ہے‘ جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ فتح ممکن ہے لیکن شکست خوردہ فوج محض فتح کے آسرے پر لڑتی ہے‘ اس کے پاس کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی نہیں ہوتی ہے‘ جنگ کے ماہر جرنیل اپنی جنگی حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہیں اور اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں‘ اس لئے ان کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ فتح پر قابو پالیتے ہیں۔
جنگ کے فن کے اہم اجزاء یہ ہیں:
فاصلے کی پیمائش‘ مقدار کا اندازہ‘ صحیح تخمینہ‘ قابل اعتماد ساتھی‘ فتح کے مواقع۔
فاصلے کی پیمائش‘ میدان کے حساب سے کی جاتی ہے مقدار‘ پیمائش اور تعداد کا اندازہ اعداد وشمار سے کیا جاتا ہے‘ یوں فاتح فوج کو ایک ”یے“ (قدیم چین کا ایک اوزار جو 24 اونس کے برابر ہے) جسے ایک دانے سے تولا جاتا ہے جبکہ شکست خوردہ فوج ایک ایسے دانے کی طرح ہے جسے (محض) ”یے“ سے تولا جاتا ہے۔
یہ ایک فوج کی ترتیب و تقسیم ہی ہوتی ہے کہ جس سے ایک فاتح جرنیل اپنی سپاہ کو پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والی آبشار کے پانی کی قوت کی طرح لڑواتا ہے جو جب زور سے بہتا ہے تو سامنے آنے والی ہر شے کو تباہ و برباد کرتا پاتال میں جا گرتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔