ترجیحات – برزکوہی

488

ترجیحات

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کیا ہم برملا اس امر کا اقرار نہیں کرسکتے کہ اپنے کام اور ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے اور وقت کی پابندی نہ کرنے کی بنیادی وجہ، ہمیشہ سے عدم دلچسپی اور عدم توجگی ہوتا ہے۔ اپنے مقصد اور کاذ کے ساتھ مکمل مخلصی و ایمانداری کا فقدان ہوتا ہے، بلکہ فکری و نظریاتی کمزوری ہوتا ہے۔ گوکہ اظہار اور دکھاوے کی حد تک شاید ہم مکمل مخلص و ایماندار ہوں لیکن عملاً اور داخلی طور پر ہم فکری خستگی کا شکار ہوں۔ جب فکر کمزور و ضیعیف ہو، مقصد پر ایقان کامل نا ہو، نظریہ متذذب ہو، تو پھر عدم دلچسپی و عدم توجگی خود بخود جنم لیتا ہے، جب ذات عزیز ہو تو ذات کے حوالے دلچسپی و توجہ، ایمانداری و مخلصی خود جنم لیتی ہے اور ذاتی ترجیحات و ضروریات تحریکی و تنظیمی ترجیحات و ضروریات پر اولیت حاصل کرکے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتے ہیں۔

جس تحریک یا تنظیم میں وقت کی مکمل پابندی کا رجحان موجود نہ ہو، خاص طور پر ایک مسلح و فوجی تنظیم میں، صحیح وقت پر عین کام ہونے کا روایت نا ہو تو، اس میں نقصانات اٹھانے کا ریشو بہت اونچا ہوجاتا ہے اور دشمن کو فائدے اٹھانے کے بہت مواقع فراہم ہوتے ہیں۔

شاید ایک مضمون میں تفصیلاً یہ وضع نہ ہوسکے کہ کیسے اور کس طرح وقت کا ڈسپلن خود پر لوگو کیا جائے۔ بہر کیف ہر تحریک کے ذمہ دار سے لیکر عام جہدکار تک کے لیے یہ لازمی ہے کہ آج کے کام کو آج ہی نمٹائے، جس کام پر پانچ منٹ صَرف ہونے چاہیئں، وہ پانچ منٹوں میں ہی مکمل ہو، ایک ہفتے میں نہیں۔ اگر کہیں سات بجے پہنچ جانا ہے تو وقت مقررہ سات بجے ہی پہنچ جائیں۔ ہاں مجبوری و مشکلات اپنی جگہ لیکن اس میں غیر ذمہ داری اور سستی نہ ہو۔

ایک دوست نے بتایا، ایک دفعہ اگر میں وقت مقررہ صبح پانچ بجے اٹھ کر انتظار نہیں کرتا، رابطے میں نہیں رہتا تو اس غفلت کے باعث تین مخلص و ایماندار جہدکار دوست دشمن کے ہاتھوں گرفتار یا شہید ہوجاتے لیکن وہ بچ گئے۔ ایک دوست کے فون کے بند ہونے کی وجہ سے ایک ہی مقام پر دیر تک انتظار کرتے ہوئے دشمن کی نظر میں آکر ایک دوست گرفتار ہوا تھا، مطلب اسی طرح کے ایک نہیں سینکڑوں واضح مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ دشمن کی ہنرمندی و چالاکی اور صلاحیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک کے ذمہ داروں اور جہدکاروں کی غیر ذمہ دارویوں، سستی، کاہلی، نالائقیوں کی وجہ سے اکثر نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔

تحریک میں باقی کمزوریوں یعنی رازداری کی جگہ جگہ فقدان وغیرہ اپنی جگہ لیکن زیادہ تر وقت کی پابندی نا کرنا، ایک طرف تحریکی اور دوستوں کے نقصان کا سبب بنا ہے تو دوسری طرف تحریکی کام بھی اس وجہ سستی کا شکار ہوئے ہیں، اگر کام ہوئے بھی ہیں تو ان میں بہت سی غلطیاں ہوئیں ہیں۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ وقت کی پابندی نہ کرنے کی اہم اور بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ علم و شعور کا فقدان؟ جنگ اور جنگی تقاضات سے ناواقفیت؟ نیم انقلابی پن؟ ایمانداری و مخلصی اور فکر کا ضعیف ہونا؟ فکری و نظریاتی تربیت کا فقدان؟

قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہاں ایک بندہ چند پیسوں کی خاطر ایک پاکستانی نوکری تک کرتا ہے تو اس نوکری کی خاطر صبح سویرے اٹھتا ہے، وہ شخص پورے وقت کی پابندی کے ساتھ اپنے مقررہ وقت پر ڈیوٹی پر پہنچ جاتا ہے، اور مقررہ گھنٹے وہاں بیٹھ کر کام کرتا ہے، کام ختم کرکے پھر ہی گھرجاتا ہے۔ مگر ایک انقلابی نظریاتی و فکری سنگت جو چند پیسوں کیلئے ایک نظریئے اور نسلوں کیلئے کام کررہا ہے، اسے اگر سات بجے ایک جگہ پہنچنا ہو تو وہ بارہ بجے پہنچتا ہے، اس کی آخر کیا وجوہات ہوتے ہیں؟ ذاتی مقصد، ذاتی ترجیحات، ذاتی کام، ذاتی خواہشات، ذاتی فرمائشات اور ذاتی شوق کی خاطر مکمل وقت کی پابندی و دلچسپی و توجہ لیکن تحریکی کاموں میں وقت کی پابندی نہ کرنا، عدم دلچسپی و عدم توجگی کس زمرے میں شمار ہوتے ہیں؟ آدھے گھنٹے کے کام کو ایک ہفتے تک سرانجام نہیں دینا، ایک ایک ہفتے کے کام کو ایک مہینے تک پورا نہیں کرنا اور جس کام کا تعلق اپنی ذات سے ہو، وہ اسی وقت سرانجام دینا؟ بندہ بھی وہی ایک ہو۔

تو پھر کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان فطرتاً اپنے ذاتی معاملات میں زیادہ سنجیدہ اور سرگرم ہوتے ہیں؟ اگر جواب ہاں ہے؟ تو پھر کیا یہ فلسفہ جھوٹ اور غلط ہے کہ انقلابی تحریکوں میں ذات کو یا ذاتی خواہشات کی نفی کرنا ہوتا ہے؟ یا یہ باتیں محض لغو اور بیان بازی ہیں؟ کیا آج تک ہمارے یہاں یا دنیا کے دیگر تحریکوں میں ایسے انقلابی کبھی نہیں گذرے جو اپنی ذات سے زیادہ انقلاب اور تحریک کو ترجیح و اہمیت دیں؟ یا پھر شہادت کے بعد ہر ایک کی خاطر روایتی انداز میں یہ خود بخود فٹ ہوجاتا ہے کہ وہ تحریک میں اپنی ذات سے زیادہ مقصد و نظریئے کو ترجیح دیتا تھا؟ پھر کیا غیر ذمہ داری، وقت کی پابندی نہیں کرنا، تحریکی کاموں میں عدم دلچسپی و غیر ذمہ داری، ذات کو اولین ترجیح دینا، جیسی کوتاہیاں شہادت کے بعد خودبخود دھل جائیں گی اور جب شہادت ہوئی تو پھر یہ سب یہی کہیں گے کہ وہ ہمیشہ ذات سے بالاتر جہدکار تھا؟ پھرتو ہر ایک انقلابی یہی سوچے گا کہ آج میں ذات کو اہمیت نہ دوں، کیوں وقت کی پابندی کروں، کل ویسے یہ تمام کمزوریاں و خامیاں میرے شہادت کے بعد صاف ہونگے۔

کیا آج ہمارے شعور و فکر کی بلندی اور تحریک و تنظیم اس حد تک غیرروایتی ہوچکے ہیں کہ اخلاقی جرت کرکے کسی بھی دوست کے شہادت کے بعد کہہ دیں کہ شہید کی قربانی، محنت سب کچھ اپنی جگہ قابل قدر و قابل تحسین لیکن اس میں فلاں فلاں تحریکی خامیاں اپنی جگہ پر موجود تھے، جس کی وجہ سے فلاں فلاں تحریکی نقصانات بھی ہوئے۔ پھر کیا ہر تحریکی ذمہ دار و جہدکار اس سوچ میں مبتلا ہوکہ کل یعنی شہادت کے بعد ویسے یہ تمام خامیاں ختم ہونگے بلکہ انقلابی صفت بن جائینگے، پھر کیا ضرورت آج ان کمزوریوں و خامیوں پر غور کرنا، ان کو دور کرنے کی کوشش ہو۔ کیا یہ خود انقلابی سوچ و انقلابی صفت ہوگا؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں، پھر ایک انقلابی، ڈاکو، چور، گینگ وار جنگی منافع خور اور قاتل میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔

اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو کوئی بھی ذمہ دار سے لیکر عام جہدکار تک تحریک یا جنگ میں خود غرض ہو، سستی شہرت کار ہو، غیرذمہ دار ہو، آرام پسند ہو، لاپرواہ، سستی و بے حسی کاشکار ہو، وقت کا مکمل پابند نہ ہو، آرام پسند ہو، جنگی منافع خور ہو، اناپرست و موقع پرست ہو، اس کے باوجود جب دشمن کے جبر کا شکار ہوکر شہید ہوگیا تو پھر یہ سب تحریکی کمزوریاں و خامیاں بھی ختم ہونگیں۔ کیا یہ خود تحریک کے لیے بہتر و مناسب ہوگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کسی تنظیم و تحریک میں یہ اخلاقی جرت و ہمت ہے کہ وہ کسی کے قربانیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں و کمزوریوں کے پہلووں کو بھی واضح کردے؟

اگر تحریک و تنظیم آج یہ نہیں کرسکتا ہے، پھر کیا مورخ اور تاریخ ان چیزوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔ یعنی آج کسی بھی تحریک و تنظیم کا کسی کے بارے میں رائے صرف رائے ہی ہوسکتا ہے، فیصلہ نہیں بلکہ اٹل فیصلہ صرف اور صرف مورخ اور تاریخ کا ہوگا، اس حقیقت کو ہمیں سمجھنا اور ماننا ہوگا۔

شاید زیر بحث موضوع طویل ہوگیا، اصل بات یہ ہے کہ وقت کی پابندی کیوں نہیں؟ بروقت کسی بھی معمولی و غیر معمولی کام کو سرانجام دینا، کیوں نہیں؟ اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

اس امر پر مزید دلائل دیئے جاسکتے ہیں، مزید فلسفے جھاڑے جاسکتے ہیں، لیکن باتوں کا لب لباب محض ایک سادہ سی بات ہے کہ انسان کی ترجیحات کیا ہیں۔ بات صرف ترجیحات کی ہے۔ انسانی دماغ اس میز کی طرح ہے جس پر بہت سے فائل رکھے ہوں، اور دماغ سب سے پہلے اس فائل کو کھولتا ہے، جو سب سے اوپر رکھا ہوا ہو۔ اسی پر سب سے زیادہ توجہ ہوتی ہے، محنت لگتی ہے، توانائیاں نچھاور ہوتی ہیں اور نچلی درجے والوں پر توجہ کم ہوتی ہے، اسلیئے وہاں غلطیاں زیادہ ملتی ہیں۔ اب محض ایک سادہ سا سوال ہمیں خود سے پوچھنا ہے کہ ہمارے ترجیحات میں تحریک کہاں رکھا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔