تاریخ سے تحریک کیلئے
تحریر: نود شنز بلوچ۔
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے تو ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ تاریخ کو ہمیشہ سے طاقتور اور فاتح اپنی منشاء اور مرضی سے تخلیق کرتا اور اسے اپنی مرضی اور مفادات کے تحت پیش کرتا ہے اور دکھاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر اسی ایک سکے کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور انسانی غلطیوں کو سامنے روز روشن کی طرح عیاں کرتا اور غلطیوں کو سدھارنے کا نہ صرف موقع فراہم کرتاہے، چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ہوں، بلکہ وہ ایک حقیقی معنوں میں ایک راہبر اور راہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ایسے راہبر کا کردار کہ جو نہ دوست ہے اور نا دشمن بلکہ وہ راستوں کی صحیح معنوں میں جانچ پڑتال کر کے انکو آپکے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور آپکو حقیقی معنوں میں با اختیار کرتا ہے کہ کونسے راستے کا تعین کرتے ہیں۔
لیکن اس تاریخ کے سیاہ اوراق کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے تو بلوچوں نے ہمیشہ ایک ہی غلطی کو ہی دہرایا ہے، جسکی وجہ سے کم و بیش ایک ہی طرح کے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
ایرانی زیر تسلط مغربی بلوچستان ہو، جہاں 1891 ء میں بارانزئی قبیلے کی سرپرستی میں بلوچوں کا ایک سرداروں اور حاکموں کی ایک نہایت ہی کم عمر کانفیڈریسی کا قیام ہو جو 1928 ء میں آپسی چپقلش کی نذر ہوا جسے برطانوی سامراج نے فارس پر زوردیکر 1916 ء میں معاہدے کی بنا پر تسلیم بھی کیا تھا۔
مغربی بلوچستان میں شورش کی کہانی کا ایک رخ دادشاہ، جو ایرانی سامراج کے ہاتھوں قتل اپنے ہی دوست کے ہاتھوں کرایا گیا۔ BLF بلوچستان لبریشن فرنٹ 1970 کی دہائی میں مغربی بلوچستان میں برسر پیکار تھی،کی ناکامی، جسکی وجہ سے بلوچوں میں آگاہی اور سمجھ بوجھ آئی کہ آزادی حاصل کرنے کیلئے نا صرف متحد ہو کر لڑنا ہوگا بلکہ ایک قومی فوج ہی ان سب دردوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ چند اسباق ہمیں اسکے وجود سے ملتے ہیں اور اخذ کیے جا سکتے ہیں اگرچہ وہ اپنے اغراض اور مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔
۱۔ قبائلیت اور گروہیت سے پرَے ایک قومی فوج کی تشکیل ہی غلامی سے نجات دلا سکتی ہے۔
۲۔ منظم تنظیم کاری اور فرد واحد کے بجائے منظم اور تعلیم یافتہ لوگوں کی راہنمائی۔
۳۔ لوگوں کی زہن سازی (mass mobilisation )۔
۴۔ دوہری ممبرشپ یعنی سیاسی دوست جو سر فیس پر سرگرم عمل ہیں انکا مسلح دوستوں سے الگ ہوکر اپنے اپنے دائرے میں کام کرنا۔
۴۔ مقصد کا تعین اور اس پر جہد مسلسل کرنے کیلئے کمر بستا ہونا۔
مشرقی بلوچستان میں BPLF بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کی نا کامی جو آپسی تضاد اور گروہبندی کی نذر ہوا۔
بقول “یوولنوحا ہرارے” انسان سے زیادہ جانوروں میں خصوصیات ہیں، مثلاً ، پرندوں کا اڑنا، شیر کی طاقت، مچھلی کا پانی میں رہنے اور سانس لینے کی صلاحیت اور مینڈک اور کچھوے کا پانی اور خشکی میں رہنے کی صلاحیت۔ لیکن جانوروں اور انسان میں ایک باریک ڈوری جتنا فرق ہے، اور وہ عقل ہے جسکو استعمال کرکے انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ متحد اور یکجا ہوکر ہی اپنے سے طاقتور اور خطرناک چیز کو قابو کر سکتا ہے۔
ان سب مشاہدات اور تجربات کے باوجود اگر کوئی چیز ہے جو ہمیں ایک بلوچ کے بیرک تلے ہوکر دشمن کا مقابلہ کرنے سے جو چیز اور لوگ روک رہے ہیں، کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ وقت اور حالات کی ضرورت کیا ہے؟
یقیناً وہ اس چیز کا ادراک بہت پہلے کر چکے ہیں لیکن جو شے اسکے آڑے آرہی ہے وہ انا، شوق لیڈری، گروہیت اور قبا ئلیت اور روایتی سوچ سے متاثرہ طبقہ ہے۔
یا شاید انسانی فطرت میں شک کرنا بھروسے پر غالب آگیا ہے۔ بلوچ اپنے گذشتہ ادوار سے اگر کچھ سیکھے تو وہ اپنے غلطیوں کو اینلائز کرے بقول ڈاکٹر ابولکلام آزاد “ میں ناکام کہانیاں پڑھنا پسند کرتا ہوں کیونکہ ان سے مجھے ان چیزوں کا ادراک ہوتا ہے جو مجھے کامیابی سے دور کرتی ہیں اور میں ان سے اجتناب کر سکوں”۔ لیکن جناب میرے دیار میں تو قصہ ہی الگ ہے، یہاں سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے تحریک کو چلانے کی باتیں تو بہت سننے میں آتی ہیں لیکن چلائی تو “ٹرائل اینڈ ایرر”کے فلسفے پر ہے، یعنی کوشش کرو اگر ناکام ہوے پھر اسی طرح کوشش پھر ناکام تا کامیاب ہو جاؤ، یہ شاید ہی ان معاملات میں کارآمد ہو جن میں صرف مال یا کہیں نہ کہیں وقت کا زیاں ہو لیکن یہاں تو زندگیوں کا سودا ہے یعنی ناکامی کی صورت میں زندگیوں کے نذرانے کی فہرست وسیع سے وسیع تر ہوتی جائیگی۔
تقسیم اور ڈیموکریٹک گروہوں کی زیادہ تعداد کو اگرچہ ڈیموکریسی کی خوبصورتی تصور کیا جاتا ہے لیکن اگر یہ تقسیم نقصان دے تو وہ خوبصورتی نہیں بلکہ ناسور بنتا ہے، اور بلوچوں کے کیس میں تو یہ ناسور زیادہ رہا ہے با نسبت ءِ خوبصورتی کے۔ یقیناً شمع آزادی کو جلانے کیلیے جتنی بھی جانیں دی جائیں اور جتنا بھی خون بہایا جائے کم ہے لیکن جو خون ہم نے بطور قوم دیا ہے وہ اس قابل تو ہوں کہ قوم کو ایک صفحے پر لاکر براجمان کرے۔ قوم اپنی گروہی، قبائلی یا علاقائی مفاد کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے قومی مفاد کو باقی تمام مفادات پر فوقیت دیتے ہیں اور انہیں سرفہرست رکھتے ہیں۔ ہر زی شعور اس بات کا تعین کر سکتا ہے یا اس اہل ہے کہ وہ اپنے قومی اور گروہی مفادات میں فرق کا تعین کر سکے۔ یقیناً تاریخ کی مار جابرانہ اور ظالمانہ ہوتی ہے اگر اسکو اپنے دشمن کی طرف نہیں موڑا گیا تو شاید ہی بلوچ قوم اسکی مار کو سہہ سکے، میرے منہ میں خاک مجھے ڈر ہے ہمارے بہائے گئے خون ضائع ہونگے، اگر خواب غفلت سے بیدار نا ہوئے ۔ اپنے خون اور قربانیوں کو با معنی اور سوب مندکرنے کا واحد اور واحد ہی حل یکجہتی اور متحد قوت ہے جو بلوچ راجی فوج کے قیام سے ہی ممکن ہے، جسکی مثال اور بنیاد براس اور فلسفہ جنرل ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔