بی ایس او کے سیکریٹری جنرل منیر جالب اور مرکزی قیادت کے نام کھلا خط
یاسر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کارروانِ مزاحمت سلامت، شعور سلامت، جہد سلامت، سنگت سلامت
محترم قاٸدین!
اپنے پچھلے خط میں میں نے جناب چیٸرمین کو اس کی چھ سالہ چیٸرمین شپ پر مبارکباد دی تھی، اب اگر میں آپ ساتھیوں کو بھی اس مبارکبادی میں شامل حال نہ کروں تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی اور بی ایس او کا نظریاتی کارکن نا انصافی تو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اس آٸین شکنی پر قاٸم آپ کا بھی اپنے اپنے عہدوں پر براجماں رہنا اور بی ایس او کے آٸین کو روندتے رہنا مبارک ہو۔ کیونکہ آپ بھی اس سارے گورکھ دھندے میں شعوری یا پھر لا شعوری طورپر برابر کے شریک ہیں۔
بلوچ قوم کےلیے یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ اس کے طلبا رہبر ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے ہں کہ اپنا عہدہ کیسے بچاٸے رکھیں، جب کہ یہ تو وہ ادارہ نہیں جہاں عہدے اہم ہوں، بلکہ یہ تو وہ بابرکت نظریاتی ادارہ ہے جہاں نظریہ اور سیاسی تربیت کو ہمیشہ فوقیت اور اوّلیت حاصل رہی ہے۔
کیا ہم کارکن یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب نہیں کہ آپ اس تمام دورانیے میں اپنے آٸینی و تنظیمی فراٸض سے لاپرواہ رہے؟ اور بی ایس او کے آٸین کو فقط کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر اسے روندتے رہے، جس طرح فیڈریشن کے آمر اپنی اقتدار کو جواز فراہم کرکے آٸین کو روندتے رہتے ہیں۔ اگر وہ آمر کہلاتے ہیں تو میں اپنے قاٸدین کو کیا نام دوں جو چھ سال سے میرے تنظیم کے آٸین کو توڑ کر کونسل سیشن کروانے سے کترا رہے ہیں؟
بی ایس او کا آٸین دو سال بعد کونسل سیشن کرنے کا حکم دیتا ہے اور حالات اگر ناساز ہوں تو تین ماہ مزید تاخیر کی گنجاٸش پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں مسلسل چھ سال سے کونسل سیشن کا نام نہیں لیا جا رہا۔ ایسے میں عام ممبر کا یہ سوال ہے کہ اتنے عرصے تک کونسل سیشن نہ کرنے کے اصل وجوہات کیا ہیں؟ اس غیر آٸینی عمل کے پیچھے کونسی قوتیں کارفرما ہیں؟ اگر اس عمل میں ذاتی مفادات شامل ہیں تو پھر اس میں بشمول چیٸرمین اور جنرل سیکریٹری کے سب کا احتساب ہونا چاہیے، اور اگر تیسری قوت رکاوٹ ہے تو کھل کر اسے سامنے لانا چاہیے۔ اور اب تک ایسا نہ کرنے پر چیٸرمین اور جنرل سیکریٹری اس غیر آٸینی عمل کے براہ راست ذمہ دار ہیں کیونکہ تمام تر تنظیمی اختیارات انہی کے ھاتھ میں ہیں۔
زبان تو کھول
نظر تو ملا
جواب تو دے
مجھے حساب تو دے
محترم جنرل سیکریٹری
گستاخی معاف! کہ میں تمہیں اب اس عہدے کی آٸینی ذمہ داریاں و فراٸض یاد دلاتا ہوں۔ جناب آپ ہی سینٹرل کمیٹی اور مرکزی کابینہ کے اجلاس بلانے کے ذمہ دار ہیں۔ آپ ہمیں بتاٸیں کہ اب تک ایسا کرنے سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ اس تنظیم کے اشاعتی پروگرام اور سیاسی پروگرام کے ذمہ دار آپ ہی ہیں، ابھی تک تنظیم کا سیاسی پروگرام عام ممبر کو کیوں میسر نہیں؟ ان تمام غیر ذمہ داریوں اور اعمال پر آپ ہی تنظیم اور بلوچ قوم کو جوابدہ ہیں۔
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوٸے چراغ ہیں
جو بجھ گٸے تو ہوا سے شکایتیں کیسی؟
ہمیں امید تھا کہ مرکزی قیادت انقلابی اصلاحات اور حرکات کے ساتھ سامنے آٸے گی مگر بد قسمتی سے ہمیں قیادت نے مایوس کر دیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کتنی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں گر بی ایس او کے کارکن ہر مشکل ہر تکلیف جھیل کر سرخرو ہونے کے لیے تیار ہیں۔ مگر قیادت سامنے آٸے تو صحیح قدم بڑھاٸے تو صحیح۔
حد تو یہ ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے کہ وہ جو کونسل سیشن میں غیر آٸینی طورپر تاخیر کرتے آرہے تھے، وہی لوگ اپنے اس غیر آٸینی عمل کے بھی دفاع میں تمام اسباب و اوزار کے ساتھ سامنے آٸے ہیں۔ یہ کارکنوں کے اٹھاٸے گٸے سوالات کو مزید توانا و طاقتور کرتا ہے کہ مرکزی قیادت ان غیرآٸینی اقدامات میں راضی بہ رضا ہے۔
بطور ایک نظریاتی کارکن مجھ سمیت باقی تمام دوستوں کو مذکورہ بالا عہدیداروں اور ذمہ داروں سے جواب چاہیے۔ اب قاٸدین حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرکے اس انقلابی تنظیم کی ساکھ کو بچاٸیں اور تمام تر حقاٸق قوم کے سامنے رکھ کر کونسل سیشن کا اعلان کریں۔ یہ آپ سب کا اخلاقی، تنظیمی و قومی فریضہ ہے جسے ادا کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ ورنہ بلوچ قوم اور بی ایس او کے کارکن اب مزید آٸین شکنی برداشت نہیں کریں گے۔ اور اپنے انقلابی و قومی ورثے کی ساکھ بچانے کے لیے خود آگے بڑھیں گے۔
والسلام
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔