بی ایس او کی آئین اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر : کامریڈ اسرار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بی ایس او ایک عظیم باون سالہ تنظیم ہے جس نے بلوچ قوم کو کئی نظریاتی کامریڈ، غازی اور شہید دیئے ہیں، لیکن بدقسمتی سےاس عظیم تنظیم کےسابقہ عہدیداران نے ہی بی ایس او کو اپنی ذاتی اختلافات کی خاطر ٹکڑے ٹکڑے کرتےگئے اور آج بی ایس او مختلف حصوں اور دھڑوں میں تقسیم ہے، بی یس او کے نظریاتی کارکنوں نے جب جب دیکھا کہ وہ استعمار و جابر طاقتوں کے شکنجے میں ہیں تب انہوں نے اپنا ایک نیا مورچہ قاٸم کیا اور اپنے نظریاتی کام میں جت گئے۔
آج بی ایس او ایک بار پھر حالات کی جبر کا شکار ہے اور ایک بار پھر اس نہج پر پہنچائی گئی ہے کہ نظریاتی کارکن مجبور ہو کر کنارہ کش ہوجائیں یا پھر خاموش تماشائی بنیں بیٹھیں، بطور ایک کارکن آج میں بھی اپنی تنظیمی آٸین کے ساتھ کھلواڑ پر قلم اٹھانے پر مجبور ہو چکا ہوں۔
آئین بی ایس او سلسلہ وار کونسل سیشن کرانے کی سختی سے تاکید کرتی ہے مگر افسوس کہ آئین کو روند کر اس کی مسلسل خلاف ہورہی ہے، بی ایس او کی آیین کے چند شکوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی کسی نہ کسی صورت میں پامالی ہو رہی ہے۔
آئین کا آرٹیکل دو حصہ (ب) شک نمبر دس کہتا ہے کہ اگر کوئی زون ہدایات کی خلاف ورزی کرئے تو چیٸرمین اس زون کو معطل کرکےحتمی فیصلے کےلیے مرکزی کمیٹی سے رجوع کرئے، آرٹیکل 2 حصہ (ب) الف 3 سیکرٹری جنرل مرکزی کمیٹی کے اجلاسوں کا اہتمام کرے، آرٹیکل ج شک 1 مرکزی کمیٹی کے کل اراکین کی تعداد 23 ہوگی جن میں مرکزی کابینہ کے اراکین اور 2 خواتیں بھی شامل ہونگے جو کہ کورم کاحصہ نہ ہونگے، شک 2 مرکزی کمیٹی کے دو سال میں کم از کم آٹھ اجلاس ہونگے، شک 3 مرکزی کمیٹی دیگر ملکی و غیرملکی طلبہ تنظیموں سے رابطے میں رہے گی، شک 4 مرکزی کمیٹی نشر و اشاعت کے فراٸض انجام دی کرئے گی، شک 5 مرکزی کمیٹی کسی بھی رکن کی ممبرشپ کو مرکزی کمیٹی کی دوتہاہی اکثریت سے ختم کرسکتی ہے، آرٹیکل الیکشن پروسیجر شک 1 یونٹ، زون کے انتخابات سال میں ایک مرتبہ اور مرکز کے انتخابات دوسال میں ایک مرتبہ ہوگا، شک 8 الیکشن کمیٹی اپنے فراٸض انجام دہی میں خود مختار ہوگا یعنی جمہوری طورپر منتخب اراکین کا باقاعدہ اعلان کرے گا۔
آرٹیکل کورم شک 3 مرکزی کمیٹی کےاجلاس میں اراکین کی سادہ اکثریت کو کورم تصور کیا جاٸے گا، شک 4 کورم کے بغیر متعلقہ ادارے کا اجلاس باقاعدہ اور آئینی تصور نہیں ہوگا اور نہ ہی آٸینی فیصلے کرنے کا مجاذ ہوگا، آرٹیکل رکنیت شک الف ہر وہ بلوچ طالب علم (طالب علم) جو تنظیم کےاغراض و مقاصد سے اتفاق رکھتا ہو بنیادی یونٹ میں رکنیت فیس اداکرنے سے تنظیم کا رکن ہوگا۔
شک (ب) بی ایس او کا کوئی بھی رکن کسی بھی غیرسرکاری یاسرکاری ادارے میں ملازم نہیں بن سکتا، خلاف ورزی پر رکنیت خودبخود ختم ہوجائے گی، شک (د) بی ایس او کا کوئی بھی رکن براہِ راست پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا، خلاف ورزی پر اس کی رکنیت ختم تصور کی جاٸے گی۔
مندرجہ بالا بیان کیے گئے شکوں کی ان چھ سالوں کے دوران کہیں نہ کہیں خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مرکز سے لے کر زون تک ، آج تک کسی نے اس آئینی پامالی پر سوال نہیں اٹھایا نہ ہی مذمت و مزاحمت کرنے کی کوشش کی جو کہ بی ایس او کے نظریاتی کارکن میں حقیقی طورپر موجود ہونے چاہیے ۔
موجودہ دور میں ہمیں جدیدیت کی طرف جانا چاہیے جب کہ ہمارے مرکزی عہدیداران چھ سال سے عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں، اب اس آئین شکنی کو ختم کرکے اپنے آمرانہ رویوں سے نکل کر بی ایس او کے کونسل سیشن کا اعلان کرنا ہوگا،تاکہ بلوچ قوم کے اس عظیم نظریاتی تنظیم کو مزید تقسیم در تقسیم کی روایت سے چھٹکارا حاصل ہو، ہم کارکنوں کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ تنظیم کے آئینی احکام اور تنظیمی تسلسل کو جاری رکھا جائے تاکہ موجودہ نظریاتی و سیاسی جمود کو توڑا جا سکے۔
اگر یہی چیٸرمین و کابینہ ایک بار پھر کونسل سیشن کے ذریعے جمہوری اور آئینی طریقے سے منتخب ہوکر آجائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مگر اس جمہوری تسلسل اور آئینی ضرورت کو پورا کرنا ہوگا تاکہ بی ایس او ایک ڈکٹیٹر شپ والے رجحان سے نکل کر جمہوری رجحان کی طرف پھر سے لوٹ جاٸے،اور اپنی اصل حالت میں طالب علم اور نوجوانوں کی خدمت کر سکے، آئین شکنی کا تسلسل اور کونسل سیشن کا اعلان نہ کرنا کارکنوں کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہوگا جس سے تنظیم کے اندر بغاوت جنم لے سکتی ہے۔
مجھ سے نہیں ہوگا باطل کا احترام
میری زبان کے واسطے تالےخرید لو
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔