بی ایس او کا کونسل سیشن آخر؟
تحریر: کبیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جہاں بھی نا انصافی، ظلم، حاکمیت، بڑھ جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں انقلاب کی لہر ان سب کو بہا کر برابری، انصاف اور عدل پر منحصر معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انقلاب کا وجود ہمیشہ اٹھنے والے چھوٹے موٹے سوالات کو دبانے یا ان کے منہ موڑنے کے نتیجے میں آتا ہے، جس معاشرے میں سوال اٹھانے کی ہمت ہوتی ہے، سوال اٹھاتا ہے، وہ معاشرہ بہترین مثال بن کر سامنے آتا ہے اور جس معاشرے میں سوال کرنے والے موجود نہ ہوں، اس معاشرے میں غلامی پسند اور غلام پائے جائیں گے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہمیشہ محکوم و مظلوم اقوام کی آواز بنی ہے، ہر اس فیصلے، ہر اس اقدام، جو بلوچ قومی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہو یا بلوچ قومی مفاد کے حق میں نہ ہو، بی ایس او ہمیشہ اس کے سامنے کھڑا رہا اور سوال اٹھایا، بی ایس او آزادی اظہارِ رائے پر عمل پیرا ہے، بی ایس او کے عروج کی وجہ بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور سوال اٹھانا ہے، مگر اب حالات بدل گئے شعور اجاگر کرنے، روشنی پھیلانے والے تنظیم پر آج خود سوال اٹھ رہے ہیں، جو بی ایس او آئین کی بالادستی پر قائم تھا آج وہ بی ایس او غیر آئینی چل رہا ہے، غیر آئینی مرکز، غیر آئینی کابینہ اور غیر آئینی عہدیداران کو اس بات کی پروا تک نہیں کہ وہ چھ سال سے عہدوں پر براجمان ہیں، وہ بالکل بی ایس او کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ بی ایس او کے آئین کے آرٹیکل الیکشن پروسیجر شق نمبر ( ایک) یونٹ و زون کے انتخابات سال میں ایک مرتبہ اور مرکز کے انتخابات دو سال میں ایک مرتبہ ہوگا اور آرٹیکل نمبر ایک شق نمبر دو حصہ (ب) اگر ابتر حالات کی وجہ سے مرکزی کونسل سیشن کا انعقاد نہ ہو سکے تو مدت کی توسیع ذیادہ سے زیادہ تین ماہ تک ہو سکتی ہیں۔
بی ایس او نے مجھے سوال اٹھانا سکھایا ہے، ظلم کے خلاف لڑنا سکھایا ہے، میں سوال اٹھاؤں گا، ظلم کے خلاف لڑتا رہوں گا، آخر کب تک بی ایس او کے آئین کی پامالی ہوتی رہے گی؟ کب تک غیر آئینی مرکز تنظیم کو اپنا میراث بنا کر عہدوں پر فائز رہے گی؟ بی ایس او میں آج بھی نظریاتی افراد موجود ہیں، جو تحریر و سوالات کے شکل میں بی ایس او کے آئین و تقدس کے لیے لڑ رہے ہیں، سوال اٹھا رہے ہیں اور مفاد پرست پیٹ پرست ٹولہ آج بھی بی ایس او کے غیر آئینی مرکز کے دفاع اور رام رام میں مشغول ہے۔
ہم ان سب کے خلاف بی ایس او کے آئین کے تحت لڑنے کی قسم کھا چکے ہیں، ہم بی ایس او کے آٸین کی پاسداری کرتے ہوٸے کونسل سیشن ہر حال میں کرکے اس غیر آئینی مرکز کو بھگائیں گے تاکہ بی ایس او کے جمہوری روایات برقرار رہ سکیں اور بی ایس او پھر سے بلوچ قوم کےلئے جدوجھد جاری رکھ سکے۔ یہ مزاحمت کی دہاٸی ہے، یہ دہاٸی بی ایس او کی دہاٸی ہے اور بی ایس او کا ہر کارکن یہ ثابت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاٸے گا اور اپنا صبح شام ایک کرکے اپنے مادر علمی تنظیم کو بحال کرے گا۔
ہم بی ایس او بچانے نکلے ہیں
آٶ ہمارے ساتھ چلو
ہم آمر قیادت کو بھگانے نکلے ہیں
آٶ ہمارے ساتھ چلو
ہم بی ایس او کی حفاظت کرنے نکلے ہیں
آٶ ہمارے ساتھ چلو
ہم موقع پرستوں کو دفنانے نکلے ہیں
آٶ ہمارے ساتھ چلو
ہم طلبا سیاست بحال کرنے نکلے ہیں
آٶ ہمارے ساتھ چلو
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔