بیوپاری جعلیا سرغنہ
تحریر: میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
رواں ماہ امریکہ نے اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی سرزمین پر قتل کرکے ایران کو یہ پیغام دیا کہ ہم جب چاہیں، جہاں چاہیں حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں ایران نے امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کرکے، اسے امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ قرار دیا۔ اور یوں امریکہ اور ایران نے اپنے طاقت کا اظہار بھی کیا اور ساتھ میں یہ بھی واضح کردیا کہ ایران اور امریکہ مستقبل قریب میں کسی بھی طرح کے ڈائرکٹ جنگ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ جسکی ایک مثال امریکی کانگریس کی جانب سے صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات میں کمی لانا ہے۔ اور ساتھ ہی یوکرائنی مسافر طیارے پر ایرانی میزائل حملے کی ردعمل کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا جو حالات اچانک رونما ہوئے تھے، وہ درحقیقت امریکہ کی جانب سے ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش تھی، جس میں امریکہ ایک حد تک کامیاب نظر آتا ہے مگر ساتھ ہی اس دباؤ کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ چونکہ امریکہ میں صدارتی الیکشن کا سال ہے تو بہت سے امریکی صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کا ماننا ہے کہ ایرانی جنرل حملہ صدر ٹرمپ کی جانب سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں کیا گیا ہے ۔ اب صدر ٹرمپ اور انکی ٹیم نے کس سوچ اور پالیسیوں کے تحت یہ حملہ کیا اور اس کے کس حد تک کامیاب اور دور رس نتائج حاصل کئے ہیں وہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔
ان تمام حالات و واقعات کا مطالعہ کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی تحریک اور قومی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں عالمی سیاسی ماحول اور عالمی پیدا ہونے والی تبدیلیاں کس طرح ایک علاقے اور وہاں کے لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اگر کبھی بھی عالمی تبدیلی کے اس گیم میں بلوچ قوم کی حیثیت و اہمیت کو مان کر ان سے علاقائی تبدیلی میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی بھی جائیگی تو کسی بزنس مین یا بیوروکریٹ سے نہیں کی جائیگی بلکہ دنیا ان قوتوں سے ہی بات کریگی جو حقیقی قومی قوت رکھتے ہیں، جنہیں زمین پر قوت و طاقت حاصل ہو۔ جن کُے پاس سیاسی و عسکری طاقت موجود ہو۔ جو عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرسکتے ہوں، اب اہم سوال یہاں جو پیدا ہوتا وہ یہ ہے کہ کیا وہ قوتیں جو واقعتاً قومی قوت رکھتے ہیں اور اجتماعی قومی مفادات کے محافظ ہیں کیا ان تنظیموں، جماعتوں، خواہ وہ عسکری ہوں یا سیاسی کیا انہوں نے ایسی پالیسیاں مرتب کی ہیں، جن سے ہم دنیا کے سامنے اپنی بات واضح اور شفاف انداز میں رکھ سکتے ہوں؟ کیا بحیثیت قومی سیاسی جماعت ہماری زمہ داری نہیں بنتی کہ دنیا کو یہ باور کرائیں کہ بلوچستان میں جو انسانی حقوق کا المیہ پیدا ہوا ہے وہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد نے دشمن ریاست کو حواس باختہ کردیا ہے اور وہ انسانیت سوز عمل کررہا ہے۔
کیا دنیا کو یہ کہہ کر کہ بلوچستان کا مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ہم اپنی زمہ داریوں سے فراریت کا شکار نہیں ہورہے ہیں؟ اگر آج دنیا کی کوئی طاقت آپ سے ملاقات کرتی ہے اور آپ کا موقف جاننے کی کوشش کرتی ہے تو کیا ہمارے پاس دستاویزی شکل میں کچھ موجود ہے؟ کیا آج بلوچ قومی مسئلہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی یا انسانی حقوق کی پائمالیوں کیخلاف احتجاج تک محدود ہوکر رہ گیا ہے؟ کیا آج بلوچ قومی مزاحمت کی شدت میں کمی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے سیاسی کارکنان اور بہت سے سرمچار ذہنی تھکاوٹ، سستی، اور کاہلی کی طرف مائل نہیں ہورہے ہیں؟ کیا آج ہم نے اپنی زمہ داریوں سے خود کو اس قدر غافل نہیں کردیا ہے کہ جو چند لوگ عمل کرتے ہوں عملی جہد میں شب و روز کردار ادا کرتے ہوں انہیں جذباتی، بیوقوف یا جلد بازی کرنے والا قرار دیکر اپنے عمل سے اپنی جدوجہد سے اپنی تحریک سے اپنے قوم سے اپنے ساتھیوں سے اپنے شہیدوں سے اور ان ماؤں اور بہنوں سے دھوکہ بازی نہیں کررہے جنہوں نے ہم سے امیدیں وابسطہ کررکھی ہیں اور وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں یہ وہ دوست ہیں وہ بھائی ہیں جو ہمارے گھر سے شہید ہونے والے نوجوان، بزرگ، بچوں اور عورتوں کے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینگے بلکہ دشمن کا ہر ایک محاذ پر مقابلہ کرتے ہوئے قومی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔
اب چونکہ آپ عمل کا حصہ ہیں آپ پر زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں آپ کو ہر ایک عمل، ہر ایک کام پر جوابدہ ہونا پڑتا ہے، آپ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور اگر آپ کی بات اور آپ کے عمل میں تضاد موجود ہوں تو یہ تضادات وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے کردار کو واضح کرتے جاتے ہیں کہ آپ محض زبانی کلامی کرکے تحریک میں موجود رہنا چاہتے ہیں عمل سے آپکو لگاؤ یا قربت نہیں اور آپ عمل سے جس قدر دور ہوتے جاتے ہیں آپکا عوامی رابطہ اسی حد تک کم سے کمتر ہوتا جاتا ہے۔ پھر آپ اپنے آپ کو اپنی عوامی قوت کو اپنے تحریک کے اثرات کو یہ سمجھ کر درگزر کرنا شروع کردیتے ہیں کہ اب ممکن ہی نہیں ہم کامیاب ہو سکیں اور ہم اپنے وقت کا ضیاع کررہے ہیں ہمیں اپنی زندگیوں کو اولیت کا درجہ دیکر تحریک کو دوسرے یا تیسرے درجے پر رکھ کر بس اتنا ہی عمل کرنا ہے جس سے ہم زندہ رہ سکیں اور عمل کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن پھر ایسے عوامل شعوری یا لاشعوری طور پر آپکو ایسے عمل کی جانب راغب کردیتے ہیں جہاں آپ تحریک یا تحریکی ساتھیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ آپ کی سستی کاہلی دوسرے ساتھیوں پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو کسی بھی تحریک یا تنظیم کے لئے زہرقاتل ہوتی ہیں۔ کیونکہ اگر ایک تنظیم کی قیادت کرنے والا شخص ہی سستی کی جانب مائل ہوگا تو یقیناً کارکنان اور دیگر تنظیمی ساتھی بھی اسی جانب گامزن ہونگے۔
پھر آپ بجائے خود جوابدہ ہونے کے دوسروں پر تنقید کرنا شروع کردیتے ہیں، کسی بھی مسئلے پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آپ کا لاشعور اس بات کو برداشت نہیں کررہا ہوتا کہ اب کسی بھی عمل سے اجتماعی کامیابی ممکن ہوگی۔ پھر آپ کی خاطر زمینی حقائق سے زیادہ وہ قوانین اہمیت رکھتی ہیں جو آپ کی سرزمین پر کبھی بھی لاگو نہیں ہوئے۔
اس کی سادہ سی مثال لاپتہ افراد کے حوالے سے بی این پی کی سیاست ہے، جس پر ہم بغلیں بجاکر کر اس قدر خوش ہورہے ہیں جیسے لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ اُن پر کئے گئے جبر و ظلم کا انصاف بھی مل گیا ہو۔ اُن لاپتہ افراد کے زندگی کے گذرے لمحات واپس کردیے گئے ہوں۔ ان تمام فوجی افسران اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو سزا مل گئی ہو جنہوں نے ان بیگناہ افراد کو لاپتہ کر رکھا تھا۔ یا پھر فوج کی جانب سے اپنے اس انسانیت سوز جرم کا اعتراف کرلیا گیا ہو کہ لاپتہ افراد ہماری تحویل میں تھے۔ اب یہاں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بی این پی فوج کے جرائم کو چھپانے کی خاطر لاپتہ افراد کی بازیابی کو کیش کر رہی ہے۔ جبکہ بی این پی کی جانب سے لوگوں کو لاپتہ کرنے والی فورسز کے بارے میں کوئی بھی سخت موقف دیکھنے میں نہیں آتا۔
یہاں بی این پی کا ذکر کرکے بی این پی پر تنقید کرکے وقت ضائع کرنا نہیں ہے بلکہ خود سمیت ان تمام آزادی پسند ساتھیوں کو یہ بات یاد دلانا ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا چار لاپتہ افراد کو بازیاب کراکر آٹھ کو لاپتہ کرنے کے گیم میں بی این پی بھی ملوث ہوچکی ہے یقیناً ہم ان خاندانوں سے کسی بھی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کی اپیل کس سے کریں اور کس سے نہ کریں لیکن بحیثیت سیاسی کارکن ہمیں ہر ایک عمل کا مکمل مطالعہ کرکے پھر کسی بھی عمل کی حمایت یا مخالفت کرنا چاہیئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔