بلوچستان نظریاتی سیاست کی ضرورت
تحریر: حمدان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان اپنے قدرتی معدنیات، علاقائی حیثیت کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اور انہی قدرتی معدنیات اور علاقائی حیثیت کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ سے قبضہ گریت کا شکار رہا ہے، مگر بلوچ قوم نے ہمیشہ سے قبضہ گیریت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے مذاحمت کی ہے. تاریخ کو اگر دیکھیں تو بلوچ قوم کی سیاست کی عمر بہت کم ہے. یوسف عزیز مگسی بلوچ قومی سیاست کے بانی مانے جاتے ہیں. آپ نے شب روز محنت کرکے بلوچ قوم کو ایک سیاسی شعور دی، اسی سیاسی شعور کو آگے بڑھاتے ہوئے مرحوم نواب خیربخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچستان اور بلوچ کے قومی حیثیت کو بحال کرنے میں لگادی. نواب خیربخش مری نے حق توار سرکل کی مدد سے بلوچ قوم کو یکجا کیا اور اسی سرکل کی وجہ سے قومی شناخت اور قومی تحریک کو زندہ رکھا. یہ سیاسی سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے بی ایس او آزاد اورشہید غلام محمد نے بی این ایم کے پلیٹ فام سے قومی شناخت اور قومی سیاست کو مزید وسعت دی. اس دوران بہت سے اہم شخصیات نے سیاسی شعور وآگاہی دی. مگر شہید غلام محمد کے بعد سے کسی اور شخصیت یا سیاسی پارٹی نے اس قومی سیاست کو آگے نہ بڑھایا، جسکی وجہ سے بلوچ سیاست زوال کا شکار ہوا.
بلوچستان میں بی ایس او آزاد کے کالعدم ہونے کے بعد سے بلوچ سیاست کو جیسے لقوہ لگ گیا ہو. سرفیس میں موجود تمام سیاسی دوست بی ایس او آزاد کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں پیش پیش تھے، بی ایس او آزاد کے ہر پروگرام میں نظریاتی ورکرز کی تعداد بے شمار تھی. بی آر پی, بی این ایم, بی این ایف سب ہی بی ایس او آزاد پر منحصر تھے اور ہوتے بھی کیوں نہ بی ایس او آزاد کی لیڈر شپ سے ورکر تک سب خود میں ایک لیڈر کی مانند تھے.
بلوچ قومی سیاست کے زوال کا ریاست نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے تیار کردہ بتوّں کو سرفیس میں لے کر آگیا، جن کا مقصد بلوچ قوم پرست اور بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنا تھا اور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، وقتی طور پر.موجودہ صورتحال کے پیش نظر نظریاتی دوست خاموشی اختیار کرگئے اور اپنے سیاسی حرکات کو محدود کردیا. اس دوران ریاست نے بلوچ قومی سیاست کو قریب قریب ختم کردیا اور اپنے بنائے ہوئے کٹھ پتلی پارٹیوں کو حکومتوں میں لانا شروع کردیا اور بلوچ قوم کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کردیا جن میں نیشنل پارٹی اور باپ سرفہرست ہیں.
نیشنل پارٹی کو پہلے استعمال کرتے ہوئے سی پیک کو بلوچستان میں جگہ دی اور پھر نواب ثناءاللہ زہری کو وزیراعلیٰ بنادیا. نواب ثناء زہری جوکہ قومی تحریک کے بڑے مخالفین میں سے تھے، اپنے دور حکومت میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز کو مزید وسعت دی اور خود انکی براہ راست ہیلی کاپٹر سے نگرانی کرتے رہے. موجودہ کٹھ پتلی حکومت باپ کی ہے، جس میں بلوچستان کے وہ تمام شخصیات شامل ہیں جوکہ بلوچ قومی تحریک کے مخالفین میں سے ہیں، جن میں قدوس بزنجو, سرفرازبگٹی, میر ضیاء شامل ہیں. یہ حکومت بلوچستان کی سیاست کو مزید پیچھے دھکیل رہی ہے. طلباء سیاست پر پابندی لگا کر اس بات کو واضع کردیا کہ بلوچستان میں آنے والے دور میں حقیقی سیاست دان پیدا نہ ہوں. طلباء سیاست پر پابندی کی اصل وجہ بی ایس او کی سیاست کو ختم کرنا ہے کیونکہ بی ایس او نے ڈاکٹر اللہ نظر, بشیر زیب, ذاکر مجید, شہید کمبر چاکر, زاہد بلوچ اور بانک کریمہ بلوچ جیسے نظریاتی سیاست دان پیدا کیئے. اب موجودہ کٹھ پتلی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ مزید ایسے شخصیات بی ایس او کی وجہ سے پیدا ہوں جوکہ بلوچ قومی شناخت کے حوالے سے کام کرئیں.
ان سارے حالات اور معاملات کو دیکھتے ہوئے بلوچ قومی سیاست کو ایک ایسے سیاسی ماس پارٹی کی ضرورت ہے جوکہ بلوچ نیشنلزم کو زندہ رکھتے ہوئے بلوچ قومی سیاست کو سرفیس میں زندہ کرے. بلوچ قوم کو مزید تقسیم ہونے سے روکے اور اپنے سیاسی حکمت عملیوں کو کچھ ایسا بنادے کہ جس سے ورکرز کو جانی نقصان نہ ہو کیونکہ ورکرز ہوں گے تو ماس تک رسائی ہوگی. نظریاتی ورکرز کو ایک ہونا پڑے گا، یہی وقت ہے تمام اختلافات کو بھلا کر بلوچ قومی کاز کی خاطر ایک نئے حکمت عملی کے تحت ایک ہو جائیں. اگر ابھی ایک نہ ہوئے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرئیں گے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔