بلوچستان میں کتاب کلچر کی فروغ – محمد عمران لہڑی

521

بلوچستان میں کتاب کلچر کی فروغ

تحریر :  محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سیاسی حالات 2006 کے بعد انتہائی سخت اور نازک ہوگئے، تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و زن خوف میں مبتلا ہوگئے، ہر طرف خوف کا عالم تھا، قتل و غارت گیری عام تھی، لوگوں کو لاپتہ کرنا، مسخ شدہ لاش گرانا، نامعلوم ٹارگٹ کا شکار ہونا، رات کی اندھیرے میں چادر اور چار دیواری کی تقدس کو پامال کرنا، ایک غیر قانونی عمل کی لہر نے انسانی زندگی کو اجیرن بنا دیا تھا، نہ قانون کی پاسداری، نہ انسانیت کا خیال نہ مذہب کی پرواہ اور نہ ہی ملک و ملت کی فکر، بس جو ہاتھ آتا بغیر قانون،کورٹ کچہری کے روڈوں پر فیصلہ کرکے ریاست آئین ادارے اور اعلی عدلیہ سپریم کورٹ کو لات ماکر ان کو کوئی حیثیت نہ دیکر اپنے من مانی کے سزا دیکر کر تمام اداروں کی تزلیل کی جاتی تھی۔

پھر آہستہ آہستہ لوگ اٹھتے گئے، ظلم کے خلاف بولتے گئے، اس غیر آئینی عمل کے خلاف سراپا احتجاج کرتے گئے بلآخر لوگوں کے دلوں سے خوف نکل گیا، پھر بلوچستان میں ایک سیاسی ماحول شروع ہوگئی، لوگوں کا سیاست کی طرف رجحان بڑھتا گیا، پھر بلوچستان کے طلباء نے کتاب کو اپنا ساتھی بنایا، کتاب کلچر کو فروغ دینے کیلئے تعلیمی اداروں میں بک اسٹال لگاتے رہیں۔

پھر آخر کار بلوچستان میں ایک کتاب کاروان بنام”بلوچستان کتاب کاروان” شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کتاب کلچر کو پروان چھڑانے کیلئے کوئٹہ سمیت بلوچستان کی زیادہ تر تعلیمی اداروں میں بک اسٹال لگاتے گئے، پھر تعلیمی اداروں کے علاوہ گنجان آبادی والے علاقوں میں بُک اسٹال لگاتے گئے، مادری زبانوں کے عالمی دن پر سریاب مل میں 21فروری 2017 کو ایک بُک اسٹال لگایا گیا،2017 میں سینٹرل کمیٹی کی اجلاس میں کتاب کلچر کو فروغ دینے کیلئے یہ تاریخی فیصلہ کیا گیا کہ کتاب کو بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچانا ہے،اس قدم کو “بلوچستان کتاب کاروان” کا نام دیا،اس کا آغاز ضلع مستونگ سے 10 مارچ 2017 کو ہوا، بلوچستان کتاب کاروان آج بہت سے اضلاع کا چکر کاٹ کر کتاب کلچر کو انتہائی موثر انداز میں ترقی دی ہے جوکہ آج تک محو سفر ہے،کاروان کی اس تین سالہ سفر میں بلوچستان کے علاوہ کراچی، ڈی جی خان، روجھان مزاری تک کتاب کلچر کو فروغ دیا گیا، یقینا یہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب ہے جوکہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے دوستوں نے تمام مصائب برداشت کرکے کتاب کو بلوچ علاقوں تک پہنچایا۔

آج مختلف مواقع پر بلوچ طلباء تنظیمیں کتاب کو اہمیت دیکر کتابوں کا اسٹال لگایا کرتے ہیں، اس سے قوم کو وہ شعور اور قومی قوت نصیب ہوتی ہے جس سے بلوچ قوم اغیار اور اپنوں کے دھوکے سے نکل کر ان میں قومی ذمہ داریوں کو خندہ پیشانی سے نبھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہیں۔

اس سال بلوچستان سے ایک تاریخی پیغام دنیا تک پہنچ گیا، بلوچستان میں سال کا آغاز “کتاب میراث جہد” سے کیا گیا، یکم جنوری 2020 کو یوتھ کریئٹیو اینڈ سپورٹیو فاؤنڈیشن, پڑو ادبی کچاری اور نشست آن لائن کی جانب سے منیر احمد خان چوک سریاب روڈ پر سال کا آغاز ایک بُک اسٹال سے کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے لیے سب سے بڑی خوشی کا عالم یہ ہے کہ اپنے قوم تک کتاب پہنچائے اور اپنے معاشرے کو ایک کتاب دوست معاشرہ بنائے، یقینا یہ ایک عمل قابل تعریف ہے، بلوچستان کے تمام سیاسی، ادبی، فلاحی اور سماجی تنظیموں کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کو سپورٹ کرے اور ایک کتاب دوست سماج بنانے میں اپنے کردار ادا کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔