ایک دن بلوچوں کی طرح گذاریئے
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
جب آپ کی والدہ ایک پرائیوٹ ہسپتال میں بہترین ڈاکٹرز اور نرسوں کی موجودگی میں آپ کے پیدائش کا درد اٹھارہی تھی ۔ تب بلوچستان کے امیر ترین شہر گوادر میں ایک ماں دوران زچگی ابتدائی طبی امداد میسر نہ ہونے کی وجہ سے اور ڈاکٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے بچے کی زندگی کی جنگ ہار چکی تھی۔
جب آپ کی والدہ آپ کی خاطر بہترین ناشتہ آملیٹ، بٹر، جیم یا کریم بریڈ پر لگا کر پیش کررہی تھی۔ تب معدنیات سے بھرپور بلوچستان کے ایک گاوں میں ایک ماں اپنے بیٹے کو سوکھی روٹی سیاہ چائے کے ساتھ کھلا رہی تھی۔ جب آپ اسکول کے لئے بہترین یوینفارم زیب تن کرکے اچھے جوتے پہن کر اسکول بس، وین یا سوز وکی کا انتظار کررہے تھے۔ تب آواران کے کسی گاوں کا ایک بچہ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر پیدل اسکول کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔
جب آپ پنکھے یا اےسی کی ہوا میں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے تھے، تب بلوچستان کے اکثر علاقوں کے بچھے تپتی دھوپ میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
جب آپ اسکول سے واپس گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں جاکر اپنا سامان رکھ کر واپس آکر کھانے کے میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا انتظار کررہے تھے، جسے پکانے کی خاطر سوئی گیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ عین اسی وقت ڈیرہ بگٹی میں سوئی گیس کے حقیقی وارث لکڑیاں چُن کر اپنے لئے کھانا بنانے کی کوشش کررہے تھے۔
آپ اپنی زندگی میں مگن تھے، عمر گذارتے گئے، اسکول پاس کرکے کالج پہنچ گئے، پھر آپ نے یونیورسٹی جوائن کرکے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کرلی اور وہ بھی بغیر مسائل کے۔ جبکہ بلوچستان میں وہ بچہ جو تمہارے ہی ساتھ اپنے گھر سے اسکول کے لئے روانہ ہوا تھا وہ اب لاپتہ ہوچکا ہے۔ وہ ماں جو تمہارے والدہ کے وقت کے عین مطابق ڈیرہ بگٹی میں کھانا پکانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، وہ فوجی آپریشن میں شہید کردی گئی۔ وہ اسکول جس کی عمارت کبھی تعمیر نہ ہوسکی تھی وہ اب فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔
آپ بڑے ہوچکے ہیں، آپ انسانیت سمجھنے لگے ہیں آپ کہہ رہے ہیں ہمیں بلوچوں کے درد کا احساس ہے۔ بلوچ ہمارے بھائی ہیں ہم بلوچوں کے انسانی حقوق کی اہمیت و قدر کرتے ہیں انکے خلاف فوج کشی کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن اسی لمحہ میں آپ بلوچوں سے یہ بھی کہہ ڈالتے ہیں کہ آپ آزادی مت مانگیں آپ پاکستان زندہ باد کہہ دیں آپ فوج کی عزت کریں آپ بوٹ کی بقاء و سلامتی کو مجروح نہ کریں۔
آپ نے چونکہ پاکستان اسٹڈیز کا علم حاصل کیا ہے، اسی لئے آپ بہت کنفیوز ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کی کوئی دستاویزی تاریخ تو میسر نہیں اسی لئے انہیں بےوقوف بنانا انہیں انکی حقیقی تاریخ سے بھٹکانا بہت بڑی بات نہیں ہوگی لیکن آپ غلط سوچتے ہیں آپ غلط سمجھتے ہیں، آپ نے ابھی بلوچ کے مزاج، انکی سوچ، انکے قابلیت اور اپنی قوم و سرزمین سے محبت سے بھری تاریخ کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ کیونکہ آپ بلوچ بن کر نہیں جیئے ہیں۔
آپ ایک دن بلوچوں کی طرح گذارئیے پھر آپکو اندازہ ہوگا کہ پیراں سالہ آغا عبدالکریم، نواب نوروز خان، نواب اکبر خان بگٹی و نواب خیر بخش مری جیسی تاریخی شخصیات اس عمر میں بھی کس طرح اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوتے ہوئے دشمن کو للکارتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ بلوچ بن کر زندگی گذاریئے پھر آپکو اندازہ ہوگا کہ گوادر میں سی پیک کے نام پر کس طرح تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ لوگوں کی معاشی استحصال کس طرح سے رواں دواں رکھا گیا ہے۔ طالب علموں کی جبری گمشدگیوں سے لیکر ماہیگیروں کے زریعہ معاش کو کس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔
اگر آپ بلوچ بن کر جی رہے ہوتے تو آپ کو پتا ہوتا کہ ایک گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر کیوں پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتا ہے۔ بولان کی خوبصورت وادیوں میں پلنے والا اُستاد کیوں اپنے ہی اولاد کو سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربان کردیتا ہے۔ اگر آپ بلوچوں کی طرح زندگی گذارتے تو آپ یقیناً دیکھ پاتے سن پاتے، سمجھ پاتے اور جان پاتے کہ کیوں بلوچ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اور کیوں پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔