امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے بین الاقوامی ممانعت کے باوجود ایران کے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کو امریکی فوج کے لیے جائز عمل قرار دیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وزیر دفاع مارک ایسپر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مسلح جنگوں کے لیے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ باضابطہ طور پر ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کے بیان کو مسترد کر رہے ہیں؟ تو ایسپر نے اس کا سیدھا جواب دیتے ہوئے کہا یقیناً یہ مسلح جنگوں کے قوانین ہیں۔
صدر ٹرمپ اس سے قبل دو بار ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
وہ نہ صرف اس بیان پر قائم رہے بلکہ گذشتہ روز اندورنی مخالفت کے باوجود اس کا دفاع بھی کرتے نظر آئے۔
ٹرمپ نے ہفتے کو اپنی ٹویٹ میں ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ اتوار کے روز فلوریڈا میں چھٹیاں گزارنے کے بعد واشنگٹن واپس پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے اس بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا انہیں (ایران کو) ہمارے لوگوں کو مارنے کی اجازت ہے۔ انہیں ہمارے لوگوں کو اذیت پہنچانے اور اپاہج کرنے کی اجازت ہے۔ انہیں سڑک کے کنارے بم نصب کرنے اور ہمارے لوگوں کو ان بم دھماکوں میں اڑانے کی اجازت ہے۔ اور ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں ہے؟ اب ایسا نہیں چلے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایرانی ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کو نشانہ امریکی فوج کے لیے ایک جائز عمل ہو گا۔
خیال رہے کہ جمعے کو عراق میں ہونے والے امریکی حملے میں ایران کے مرکزی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر تہران کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ریاستی دہشت گردی اور ایران کی حاکمیت کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
ادھر امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فوجی کارروائیوں کے اختیار کو محدود کرنے کے لیے ” وار پاورز “قرارداد پر ایوان میں جلد ہی ووٹنگ کرائی جائے گی۔