انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کو گذشتہ سال 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا اور نصف سال تک امارات میں نامعلوم مقام پر رکھ کر 22 جون 2019 کو غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کیا گیا جبکہ 3 جولائی 2019 کو ملکی خبر رساں اداروں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے خبر چلائی گئی کہ راشد حسین کو پاکستان منتقل کیا گیا ہے اس حوالے سے نہ صرف سرکاری ذرائع نے باقاعدہ تصدیق کی بلکہ ہمارے پاس راشد حسین کے غیر قانونی منتقلی کے ناقابل تردید ٹھوس شواہد اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر راشد حسین کی جبری گمشدگی کو ایک سال اور ایک ماہ کا طویل عرصہ ہوگیا ہے۔ میرے لختِ جگر کو کسی قانونی، تحقیقاتی اور عدالتی فورم پر نہیں لایا گیا اور نہ پی اس کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم کی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہم بوڑھے والدین نے اپنے بڑھاپے کے سہارے کی جدائی میں دکھ درد کی انتہائی کیفیت میں انصاف کے حصول کیلئے دستیاب وسائل بروئے کار لا کر تمام دروازوں دستک دی اور خاص طور پر ملک کے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم قومی کمیشن، انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں، قبائلی و سیاسی عمائدین اور بلوچستان کی نمائندگی کی دعویدار سیاسی جماعتوں کے اکابرین سے انصاف چاہا مگر ہر جگہ سے مایوسی کے علاوہ اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔
راشد حسین کے والدہ کا کہنا ہے کہ سردار اختر جان مینگل نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک ٹھوس موقف اپنایا ہے اور ملک کے موجودہ حکومت کو قائم رکھنے میں ان کا بنیادی کردار ہے، وہ وقتا فوقتاً لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہے، یقیناً اس دوران کئی لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن بھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مجھے بھی امید ہوئی کہ بیٹے کی بازیابی کیلئے وہ موثر کردار ادا سکتے ہیں اس حوالے سے میں کوئٹہ میں واقع ان کے گھر بحیثیت ایک ماں کے اپنی فریاد لیکر گئی جہاں پر بلوچی رسم و رواج کے تحت مجھے عزت دی گئی اور محترم سردار مینگل صاحب نے بذات خود مجھے بیٹے کی بازیابی کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی جس سے میری عزت افزائی اور حوصلہ افزائی ہوئی لیکن اس کے بعد نہ جانے وہ کون سے عوامل تھے جس کے بعد انہوں نے نہ میرے بیٹے کی بازیابی کیلئے کچھ بولا اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ سنجیدہ کوشش کی جس کے باعث میرے دکھ درد، ذہنی کوفت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔.
والدہ راشدہ حسین نے کہا ہے کہ مجھے قوی امید ہے کہ بلوچستان کے باشعور غیرت مند نوجوان میری لخت جگر کے بازیابی کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کرینگے جس طرح وہ اس سے قبل ہمارا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ پھر محترم سردار اختر جان مینگل سے دست بستہ ہمدردانہ اپیل کرتی ہوں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بالعموم اور میرے بیٹے کی بازیابی کیلئے بالخصوص اگر رہائی نہیں کم از کم منظرعام پر لانے اور عدالت میں پیش کرنے کیلئے ذاتی دلچسپی لیکر اقدامات اٹھائے۔
دریں اثنا لاپتہ راشد حسین بلوچ کی بہن فریدہ بلوچ نے کہا ہے کہ کل بروز اتوار 26 جنوری کو جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے افراد کی بازیابی کے لئے کراچی میں ہونے والے جئے سندھ تحریک کے مظاہرے میں میری والدہ شرکت کر کے راشد کی بحفاظت بازیابی کے لئے احتجاج کریگی۔
فریدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ کل سوشل میڈیا پر #SaveRashidHussain کے ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین بھی چلائی جائے گی جو شام 5 سے رات 8 بجے تک ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس، انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی و سماجی کارکنان سے اپیل کرتی ہوں کہ اس مظاہرے اور کمپئین کو کامیاب بنانے کیلئے ہمارا ساتھ دیں۔