اختر، ایک زہریلا ریاستی ہتھیار – اشک بلوچ

458

اختر، ایک زہریلا ریاستی ہتھیار

تحریر: اشک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں آپ کے گھروں کے چراغ واپس لاؤں گا۔ میں اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹونگا۔ میں مر تو سکتا ہوں لیکن بِک نہیں سکتا۔ مجھے اسمبلی میں اس لیے نہیں بھیجا گیا ہے کہ میں مراعات لوں اور بلوچ قوم کا سودا کروں۔ میں 6 نکات سے پیچھے ایک قدم نہیں ہٹ سکتا۔ میرا جینا مرنا بلوچ قوم کی ننگ و ناموس کی حفاطت کے لیے ہے۔ یہ تقریباً وہی باتیں ہیں جو سردار اختر مینگل اپنے اسمبلی کے ہر تقریر میں دہراتے رہتے ہیں۔ یہ باتیں انتہائی شیریں، خوش کن اور دلفریب ہیں۔ ان میں بلوچیت بھی ہے، اور بلوچستانیت بھی۔ اور شاید یہی باتیں ہیں جن کو سن کر بڑے سے بڑے شیر ڈھیر ہورہے ہیں اور بڑے بڑے پروفیسرزخود کو سقراط ، افلاطون، ابن عربی اور پتہ نہیں کیا کیا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ تو اس قدر جذباتیت کا شکار ہو گئے اور یہاں تک کہہ ڈالے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھ کر سردار صاحب کو درازیِ عمر کی دعائیں دے رہے ہیں۔

شہرت کی بد ترین پیاس ہے۔ ایک ہی شخص موضوعِ گفتگو ہے۔ اور جو اصل موضوع ہے وہ گفتگو سے کوسوں دور ہے۔ جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہو جاتا ہے سردار صاحب کے چاہنے والے اور آج کل انکے سوشل میڈیا ٹی وی چینل والے فوراً اس کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں اور پھر سوالوں کا انبار۔ سوال یکے بعد دیگرے یہی ہوتے ہیں کہ آپ اپنی رہائی کے بعد کتنے خوش ہیں اور سردار اختر کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اب بھلا وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خوش نہیں ۔ وہ انتہائی معصومیت سے یہی کہتا ہے کہ جی خوشی محسوس کر رہا ہوں اور سردار صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج کل باقاعدہ طور پر سردار اختر کے جان نثاران ان لاپتہ افراد کو ریسیو کرتے ہیں۔ اور سامنے سردار صاحب کی ایک خوبصورت تصویر بھی لگی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہی کام سرکاری سردار نور احمد بنگلزئی بھی کرتے رہے۔ پھر اس کے بعد سوشل میڈیا پر لمبی لمبی پوسٹوں کا ایک فوج ظفر موج میدان میں اتر جاتا ہے۔ اور ا س میدان میں ایک طرف کچھ جان نثارانِ اختر سلطان سبکتگین کا فرزند محمود غزنوی کچھ صلاح الدین ایوبی اور کچھ شیر شاہ سوری بن جاتے ہیں۔ ہر طرف :شکریہ اختر جان: کی پوسٹوں سےسوشل میڈیا کی فضا اختر آلود ہو جاتی ہے۔ اس نورا کشتی میں نامی گرامی پروفیسرز بھی کود پڑتے ہیں اور پھر اس سے آگے کہنے کو کچھ نہیں رہتا۔

چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ یہ سب لاپتہ افراد سردار اختر جان مینگل کی کوششوں اور اسمبلی میں کیے جانے والے دھواں دھار تقاریر کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں ۔ تو شاید ان لاپتہ افراد میں ایک نام ذاکر مجید کا بھی ہے ،ایک نام زاہد بلوچ بھی ہیں، ایک نام علی اصغر بنگلزئی کا بھی ہے اور کیا بتاؤں کہ ایک پورا گھرانہ ایسا ہے جس کے 17 افراد ہی لاپتہ ہیں۔ اور اس طرح ایک ایک کرکے ہزاروں ایسے جوان ہیں جو شاید اب بوڑھے ہو چکے ہونگے زندانوں میں۔ لیکن ان کی واپسی تو درکنار ان کا نام لینے کی جرات بھی موصوف نہیں کرتے۔ اور نہ کبھی کریں گے۔

اب ذرا ایک دم کے لیئے سوچیں کہ یہ کھیل کس شطرنجی انداز میں کھیلا جا رہا ہے۔ موصوف کے آنے سے پہلے صرف اور صرف بی ایس او (آزاد) کے وہ خاص دوست لاپتہ کیے جاتے، جن کی دھاڑ شیر کی طرح تھی جن کی آواز میں دم تھا۔ اور جن کی پوری سوچ و فکر اس بزگ و لاچار قوم کی خدمت تھی اور وہ واقعی کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اور کر رہے تھے۔ اور وہ آج بھی بد ترین ازیت کا شکار ہیں۔ ان کی سرفیس سیاست پر پابندی بھی لگی ہوئی ہے۔ جبکہ موصوف کے زیر نگرانی چلنے والی طلبہ تنظیم جو اب صرف بی ایس او ر پہلے بی ایس او (محی الدین ) کے نام سے جانا جاتا تھا پر کوئی پابندی نہیں ۔ اور جب سے موصوف اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کی کمی پوری کر رہے ہیں تب سے اس کے زیر نگرانی طلبہ تنظیم کے لوگ بھی لاپتہ ہونے لگے ہیں ۔ جو اکثر2، 4، یا زیادہ سے زیادہ 8 ماہ بعد بازیاب ہو جاتے ہیں۔ اور اسکے بعد : شکریہ اختر جان: سے سوشل میڈیا اختر آلود ہو جاتی ہے۔

ایک انتہائی اہم بات اس سے مزید واضح ہو جائیگا کہ درونِ خانہ کیا چل رہا ہے۔ آج کل سردار صاحب کے دائیں بائیں اکثر ایک کمزور ، لاغر اور کلین شیو سے جوان جو ایک زمانے میں مولویوں والے پوشاک میں ملتے تھے بھی نظر آتے ہیں جن کو صحافت سے تعلق رکھنے والے دوست بخوبی جانتے ہیں ۔ وہ بھی اپنی ذات میں ڈاکٹر چی اور نیلسن منڈیلا سے کم نہیں ۔ کیونکہ وہ بھی اکثر بلوچ طلبہ کے درمیان نظر آتے ہیں ۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ۔ اور شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ جناب گوادر کے مشہور و معروف منشیات فروش کے فرزند عظیم ہیں۔ وہ بھی ایک بلوچ طلبہ سیاسی تنظیم کے بانی و سرپرست ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل اس کی تنظیم کے طلبہ بھی لاپتہ ہورہے ہیں۔ اور جلد یا بدیر وہ بھی بازیاب ہو جائینگے ۔ اور ایک دفعہ پھر نعرہِ اختریہ بلند ہوجائیگا۔

اس طرح یہ لاپتائی اور بازیابی کا کھیل کھیل کر لاپتہ افراد کو ریاست اپنے ایجنٹوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ لاپتہ افرادکا اصل معاملہ بد ترین انداز میں گمنام خانوں کے نظر ہو رہا ہے۔ اور حقیقی بلوچ فرزندوں کے سخت ترین کیس کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ اور لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے حقیقی جدوجہد کرنے والوں کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ آج اگر کوئی لاپتہ بلوچ فرزند بازیاب ہو جاتا ہے تو کوئی ماما قدیر زندہ باد نہیں کہتا۔ کیونکہ ماما قدیر نے گورنر بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اگر وہ آج گورنر ہوتے تو شاید ہر طرف ماما قدیر زندہ باد کے نعرے بلند ہو رہے ہوتے۔ لیکن وہ مردِحر بکا نہیں، جھکا نہیں اور نہ شاید نہ کبھی جھک جائیں۔

آپ اندازہ لگائیں۔ وہ ماما قدیر جو ایک تاریخی جدوجہد کا امین ہے۔ جو وفاپرستی اور حق پرستی کی علامت ہے۔ جس کی جدوجہد نے ایک عالمگیر مقام حاصل کرلی ہے۔ لیکن جب سے موصوف اسمبلی میں دھواں دھار تقاریر کر رہے ہیں تب سے ماما قدیر کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ عقوبت خانوں سے لوگ تب بھی بازیاب ہوتے تھے جب سردار صاحب شاید ماما قدیر سے آشنا بھی نہیں تھے۔ لیکن کمال کی عیاری ہے آج ایک مکمل فورس لگی ہوئی ماما قدیر کی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے۔ لیکن یہ چراغ پھونکوں سے نہ بجھا ہے نہ بجھے گا۔

اگر واقعی سردار اختر بلوچ قوم کے خیر خواہ ہیں تو سب سے پہلے ان لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں جو اس کے بلکل پڑوس میں شفیق مینگل کے ٹارچر سیلز میں ازیت سہہ رہے ہیں۔ جو ان کے یار ِ خاص دشتِ گوران کے کمبر مینگل کے ازیت خانوں میں درد سہہ رہے ہیں۔ پہلے ان بلوچ فرزندوں کو بازیاب کروائیں جو عشروں سے عقوبت خانوں میں ظلم کا شکار ہیں۔ اور پھر یہ لاپتہ لاپتہ کا کھیل ختم کریں۔300 سنگت بازیاب ہوئے ہیں اور 3500 سے زائد لاپتہ ہوئے ہیں۔ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ شطرنجی کھیل ہے اور کچھ بھی نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔