‏دشمن کی پہچان – شوان بلوچ

392

‏دشمن کی پہچان

تحریر: شوان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کل پنجگور میں رونما ہونے والے واقعے کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ایسے ہزاروں واقعات ہمارے سامنے رونما ہو چکے ہیں۔بلوچستان جو پیچھلے کئی دہائیوں سے ایک جنگ زدہ خطہ ہے یہاں بلوچ ہونا ہی اب ایک بڑا جرم سمجھا جاتا ہے جس کسی کے نام کے ساتھ بلوچ لکھا ہے تو وہ پاکستان میں ایک مجرم کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور بلوچوں کے نام ہی پر آج کئی ہزار لوگ مار دیے گئے ہیں جبکہ کئی ہزار لاپتہ کیے گئے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کو ہمیں سمجھنا ہے کہ جب تک ہم اس لاقانونیت کے شکار ملک کے قبضے میں ہیں ہمیں ہر روز اپنے نوجوانوں کے لاش اُٹھانے ہوں گے چاہے وہ ایک عام بلوچ ہو یا پھر کوئی تعلیم یافتہ شخص۔جہاں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک گھر سے بازار جانے تک کئی جگہ اپنی شناختی کارڈ دکھانی پڑتی ہو اب ایسے جگہوں پر شناختی کارڈ دکھانے والوں کے نزدیک کسی شخص کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے مار دیا جائے تو ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ضرورت پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو دن میں کئی بار شناختی کارڈ دیکھتے ہیں یہ اس وقت کہاں تھے؟ ہر ایک شہر میں جہاں سینکڑوں چیک پوسٹ ہوں اور وہاں چور بندوق کے ساتھ رات بھر شہر میں دندناتا پھر سکتا ہے ، لوگوں کو خوفزدہ کر سکتے ہیں ؟ اس کو سمجھنے کے بعد یہی جواب ملے گا کہ ہاں دیکھتے تو ہیں اور ہمیشہ دیکھتے آ رہے ہیں مگر یہ چور تو انہوں نے خود بنائے ہیں اور یہ انہی کے پالے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنا کام آسانی سے کر سکیں۔

جب قابض کو کسی قوم کے نسل کو ختم کرنا ہوتا ہے تو وہ ہر طریقے کے حربے استعمال کرتے ہوئے اُس قوم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کھبی چوروں کے شکل میں اپنے غنڈے چھوڑ کر لوگوں کو مارے گا، کھبی مذہب کا نام استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کرے گا اور کھبی بے بنیاد الزامات لگا کر لوگوں کولاپتہ کرے گا اور کھبی غداری کا مقدمہ بنا کر قتل کیا جاۓ گا۔

ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست مختلف حربوں کے ذریعے سے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہا ہے ۔ یہ سلسلہ آج کا نہیں اور یہاں پر رکے گا بھی نہیں، آج یہ واقعہ ایک کے ساتھ ہؤا ہے تو کل ہم سب کے ساتھ ہوگا ۔ اس سے پہلے ہم ایک بڑے نقصان کا سامنا کریں ہمیں یک مشت ہونا ہوگا، ہمیں آج سے ہی حالات کا ادراک کرنا چاہئے تاکہ مستقبل کی نسل کو نقصان کم ہوں۔

وقار فدا جو کل پنجگور میں نامعلوم لوگوں کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوا ۔ جس کو بڑی بےدردی سے قتل کیا گیا تھا دشمن کے اس عمل سے یہی چیز ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کوئی گناہ گار اور بےگناہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں گناہ کا معیار صرف بلوچ ہونا ہے ، وقار فدا ایک تعلیم یافتہ بلوچ تھے جو اپنے دشمن کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ بلوچستان کا ضلع پنجگور جہاں پولیس اور لیویز فورس سے زیادہ ایف سی کے کیمپ اور چیک پوسٹ ہیں اور پولیس سے زیادہ ایف سی اہلکار علاقوں میں گشت کررہے ہیں۔ وہاں ایف سی کے چیک پوسٹ کے قریب وقار کو گولی مار کر شہید کرنا اور پھر فرار ہونا تو ظاہر کرتا ہے کہ مارنے والے ایف سی اور آئی ایس آئی کے اپنے بندے ہونگے جو ہر بلوچ کو مار کے پھر آسانی سے فرار ہوتے اور جب چاہتے ہیں علاقے میں دوبارہ وحشت کا رقص شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا دیکھا جائے تو یہ صرف پنجگور میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں ایسے واقعات ہر روز سامنے آتے ہیں۔

اس پہلے تربت میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے تھے۔ جو یہی آئی ایس آئی کے لوگ تھے جو لوگوں کو بلا وجہ مار دیتے تھے جب تحقیقات کیا گیا تو وہ یہی ناسور دشمن کے پالے ہوئے جنگلی کتے تھے جنہیں دشمن اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے تھے جو دو چار پیسے کے لئیے اپنے بلوچ قوم کی نسل کوشی می شامل تھے اور آج تک بھی ہیں۔ میں اپنے بلوچ قوم سے اپیل کرتا ہوں خدارا اپنے دشمن کو پہچان لیں۔ آج جو وقار فدا کے ساتھ ہوا ہے کل آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔