‎استاد الہی بخش – ظفر بلوچ

483

‎استاد الہی بخش

تحریر: ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎زندگی چو تئی وڈا مے کوہنیں ہمرائی مرید
‎الم ءَ روچ ءِ نہ روچ جاہ ءَ دروہیت منا

‎الہی بخش مرید میرے استاد سمیت بہت اچھے دوست بھی تھے معمول کے مطابق شام کے وقت ہمارا بیٹھک لگتا تھا. کبھی مجھے شعر و شاعری کے بارے میں سمجھاتا تھا تو کبھی اپنے قصے اور کہانیاں سناتا تھا. تقریباً ایک مہینہ پہلے میری ملاقات مرید کے ساتھ سلو کے مین بازار میں مغرب کے وقت ہوا اور سلام و دعا کے بعد میں نے مرید سے کہا کہ یہاں رش کش زیادہ ہے مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں چونکہ بلیدہ میں شہید حاصل رند فاونڈیشن کی جانب سے مدتوں بعد ایک ادبی میلا منعقد ہو رہا تھا. اس پروگرام میں مشاعرہ, ساز و ذیمل, پینل ڈسیکشن شامل تھے. اس پروگرام میں بلوچستان کے نامور کتاب دوست ساتھی شرکت کر رہےتھے. میں نے مرید سے کہا کہ اس پروگرام کے حوالے سے ہم کل ملاقات کرینگے آپ سے کچھ باتیں ڈسکس کرنی ہیں. بلیدہ میں مدتوں بعد ادبی پروگرام ہو رہا ہے اس حوالے سے آپکی رائے کیا ہوگی. مرید بہت خوش ہوا اور مجھے گلے لگایا اور ہنسنے لگا کہ واقعی میں پروگرام ہو رہا ہے میں نے اسے یقین دہانی کرائی اور پھر صبح کا وقت ہم نے کنفرم کیا.

‎ اگلے صبح عصر کے بعد ایک جگہ پہ ہماری ملاقات ہوئی میں نے مرید کے ساتھ پروگرام کا پورا theme شیئر کیا. مرید کو میں نے کہا تھا کہ آپ ادبی حصے میں بلیدہ کی نمائندگی کریں. مگر مرید اس بات پر راضی نہیں ہوا اور اپنی مجبوری بیان کرنا شروع ہوا. مرید بتا رہا تھا کہ کچھ سال پہلے میرے گھر میں بجلی کی ایک تار گر گئی تھی جس سے مجھے کرنٹ لگا اور میرا ایک سائیڈ پورا خشک ہوگیا ہے. جس سے میرا کمر بھی متاثر ہوا ہے میں ایک جگہ پر 5منٹ سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتا. چونکہ مرید کا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا وہ اپنا علاج نہیں کر سکا. مرید کہہ رہا تھا کہ میں کئی دفعہ اپنی فریادیں لیکر اپنے حلقے کے نمائندوں اور علاقے کے میر و معتبروں کے پاس گیا مگر میری بات نہیں سنی گئی مجھے مالی تعاون نہیں کیا گیا جس سے مجھے بہت سے مشکلات کا سامنا ہے.

‎مرید بمشکل اپنا گھر چلا رہا تھا اسکا زریعہ معاش ایک درزی کی مشین تھی مگر وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اس مشین کو نہیں چلا سکا اسکا کمر اسکا ساتھ نہیں دے رہا تھا. جو وہ پچھلے کافی وقت سے بمشکل اپنا گھر چلا رہا تھا. ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والا مرید نہ صرف ایک شاعر تھا بلکہ وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان بھی تھا. علی جان داد اور تاج بلیدئی جیسے بڑے لکھاریوں میں انکا شمار ہوتا تھا مگر وہ اپنے گھریلو تنگدستی کی وجہ سے کبھی آگے نکل نہ سکا. مرید جیسے ساتھی اپنی موت سے نہیں مرتے بلکہ یہ سماج انکا قتل کرتی ہے بالخصوص بلوچستان میں ایسے بہت سے نام ملینگے جو اپنے گھریلو مسائل کی وجہ سے یا تو مایوس ہوکر خود کشی کرتے ہیں یا اپنے راستے بدل لیتے ہے. میں سمجھتا ہوں کے مرید کے موت کا زمہ دار وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ علمی رجحان کو بڑھانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اپنے لکھاریوں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو وہ سہولت فراہم نہیں کرتے کہ وہ پر سکون زندگی گزار سکیں.

‎دل ءَ بشود مرید راہ ءَ نو مچار منی
‎شوہاز ءَ گاریں دل ءِ شہر ء نو نیاھاں من


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔