یاداشتیں
تحریر: ظفر رند
دی بلوچستان پوسٹ
پانچ دسمبر کو دن کے ایک بجے میں گھر پہنچ گیا تھا، گھر والوں سے ملا بات چیت کرنے کے بعد 2 بجے میں نے کامریڈ چنگیز کو فون کیا اور ان سے بات چیت کی اور سنگت جیئند کی بازیابی کیلئے طے شدہ ریلی کا حال احوال لیا. دوست تیاری میں مصروف تھے. اسی دن میرا فٹ بال کا میچ تھا. میں تقریباً چار بجے گھر سے نکل کر میچ کیلئے گراونڈ گیا. میرے گاؤں میں موبائل سروس اور انٹرنیٹ کا بہت مسئلہ رہتا ہے، اسی وجہ سے میں اس دوران کسی کے ساتھ رابطے میں نہیں تھا. میں میچ کھیلنے گراونڈ کی طرف روانہ ہوا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دل ہی دل میں ایک بےچینی سی محسوس کر رہا تھا اور میرا دل میچ میں خاص نہیں لگ رہا تھا. میں ایک سائیڈ پر بیٹھ کر جیئند کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس وقت کس حال میں ہوگا۔ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا۔ دل میں عجیب سوالات جنم لے رہے تھے. کبھی اسکی یاد میں آنسو نکل رہے تھے تو کبھی اسکی یاد میں ہنسی آتی تھی.
جیئند کے ساتھ میں بہت زیادہ فری تھا. ہم تقریبا ً چار یا پانچ سال کے عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اسکی ہنسی مذاق اور اسکی باتیں نہ مجھے بیٹھنے دے رہے تھے اور نہ کیھلنے. میں ایک گھنٹے تک ایک کونے میں بیٹھا رہا اور خود کو تسلیاں دیتا رہا مگر میرے دل میں عجیب و غریب خیالات جنم لے رہے تھے اور میں مجبوراً وہاں سے اٹھ کر دوبارہ گھر آیا. گھر پہنچتے ہی میرے گھر والوں نے مجھے گھیر لیا اور جیئند کے بارے میں پوچھنے لگے. امی زور زور سے جیئند کے اور اسکے بھائی حسنین کے لئے رو رہی تھی اور بار بار دعا کرتی رہی، اور میں اسکو سمجھاتا رہا ہے کہ امی جیہند آج لوٹ آئیگا اسکے دوست سمیت گھر والے اسکے لیے آج کوئٹہ میں احتجاج کر رہے ہیں. امی کو جھوٹی تسلیاں دینے کے بعد میں وہاں سے نکل گیا. دوسرے کمرے میں گیا وہاں انٹرنیٹ کے ساتھ Connect ہوا تقریبا 5:30 کا وقت تھا. میرے موبائل میں بہت سارے میسجز آنا شروع ہوئے، سب دوست مجھے رابطہ کرنے کو کہہ رہے تھے اور ظریف، چنگیز، اورنگزیب کے بارے میں پوچھ رہے تھے. میں بہت پریشان ہو گیا ایک دوست کا کال آیا اور مجھے کہاں کہ چئیرمین کو اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ دو نا معلوم مسلحہ گاڑیاں اٹھا کر لے گئے ہیں.
یہ سننے کے بعد جیسے آسمان میرے اوپر گرگیا. سب دوست بہت پریشان تھے، بار بار رابطہ کر رہے تھے. یہ ہمارے لیئے نا قابل برداشت لمحہ تھا. چونکہ مرکزی قیادت کی جبری گمشدگی کے بعد ہم چند دوست ہی رہ گئے تھے جن کے اوپر ساری زمہ داریاں آگئی تھیں. اس درد بھری تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے میں واپس امی کی طرف روانہ ہوا. امی نے مجھ سے پھر پوچھا کہ جیئند کا کیا ہوا، میرے پاس الفاظ نہیں تھے کہ میں امی سے یہ کہہ دوں کہ ظریف بھی اپنی ساتھیوں کے ساتھ اٹھا لیا گیا ہے۔
میری حالت کو دیکھ کر گھر والے اور زیادہ پریشان ہوگئے اور پوچھنے لگے. میں نے آخر کار مجبور ہوکر گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ ظریف کو بھی انکے چار دوستوں کے ساتھ اٹھایا گیا ہے. یہ وہ لمحات تھے جنہیں میں لکھنے پر بھی گبھراہٹ کا شکار ہورہا ہوں … کیا حالت ہوتی ہے اس گھر کی جب انکے گھر سے جوان بیٹے کو جبری طور پر اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے . یہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ میری زندگی کے وہ دردناک لمحے تھے جنکو میں لفظوں میں نہیں بیان کر سکتا. میرے ہاتھ آج بھی کانپ رہے ہیں اپنے یاداشت لکھنے کو.
دسمبر کا مہینہ جس دردناک اور در بہ دری سے گذرا اس کیفیت کو وہ دوست سمجھ سکتے ہیں جو خود اس لمحے سے گزرے ہیں.
ساتھی مہینوں کی بندش کاٹ کر لوٹ آئے. ان کا نظریئے میں ذرہ برابر کمزوری نہیں آئی, بلکہ اور زیادہ توانائی اور پختگی آئی. مجھے اپنے دوستوں پر فخر ہیکہ وہ آج بھی اپنی نظریئے پر کھڑے ہیں..
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔