ہاں! میں جذباتی ہوں
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
جب موجودہ تحریک آزادی کی لہریں نئی نئی نمودار ہورہیں تھی، اور جب کوئی نوجوان، بزرگ، یا بچہ قومی آزادی، قومی جنگ اور قومی فکر کے بارے میں بات کرتا، پاکستانی قبضے، پاکستان دشمنی اور سرمچاروں کے بارے میں اظہار خیال کرتا، اور اپنی ہمدردیوں کا جھکاؤ آزادی کی تحریک کی جانب مائل دِکھاتا تو 73 و 80 کے تھکے ہوئے، بزدل و خوف کے شکار مایوس کامریڈوں سمیت نام نہاد دانشور و لکھاریوں کی جانب سے یہ برملا کہا جاتا کہ آزادی کا نام لینے والے جذباتی، مہم جو، انتہاء پسند،غیر سنجیدہ، نابالغ اور ایڈوانس سلوگن والے ہیں۔ جواب میں ماشاء اللہ ہم بھی ان کو معاف نہیں کرتے اور کہتے وہ مایوس و شکست خوردہ ہیں، ڈرپوک ہیں، پیداگیر ہیں، بھتہ خور ہیں، غدار ہیں وغیرہ۔
اب طنزیہ بات یہ ہے کہ آج وہی رویہ کچھ آزادی کے علمبرداروں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ آج اگر کوئی قومی جنگ، مسلح مزاحمت، پاکستان دشمنی کے متعلق بغیر لگی لپٹی واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا موقف اسی طرح پیش کرتا ہے، جس طرح شروع ادوار میں کیا جاتا تھا، تو پھر انکو آزادی پسندوں کے بیچ پنپتی ہوئی ایک سوچ جذباتی، مہم جو، انتہاء پسند، غیرسنجیدہ وغیرہ کے ناموں سے پکارے تو پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت کے بھگوڑے قوم پرست، دانشور، ادیب، صحیح تھے اور آپ غلط؟ اور آپ اس امر کا ادراک آج رکھ رہے ہیں، یا پھر کہیں ایسا نہیں کہ آپ میں اور ان میں کچھ یکسانیت پیدا ہورہی ہے، اسلیئے آپکی سوچ بھی اسی ڈگر پر رواں ہے؟
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم خوف، تھکاوٹ، بزدلی، شکست خوردگی، راہ فراریت، کاہلی، سستی اور آرام پسندی کو خوبصورت الفاظ کے چادر میں ڈھانپ کر سنجیدگی کا نام نہیں دے رہے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے سچائی و ایمانداری کے پیمانے کو لیکر اپنے ذہن و ضمیر و سوچ کو چیک کیا ہے کہ کہیں ہم قومی جنگ کی طوالت سے تھکاوٹ کا شکار تو نہیں ہورہے ہیں؟ اور پھر 73 و 80 کے کامریڈوں و نام نہادغازیوں کی طرح اپنے تھکاوٹ و بے عملی کو سنجیدگی کا نام دے رہے ہیں؟
میرے خیال میں چند کتابیں، بغیر سمجھے رٹا لگانا، جیب میں پین لگاکر تھری پیس سوٹ بوٹ، کاٹن و جیکٹ پہننا یا یورپ نشین ہونا سنجیدگی کا معیار نہیں ہے اور نا ہی قومی آزادی کے حصول کی خاطر بندوق اٹھاکر، دوٹوک اور واضح انداز میں اپنے موقف کو پیش کرنا، دشمن سے مقابلہ کرنا غیر سنجیدگی کے زمرے میں آتا ہے۔
عجیب روایت آن پڑی ہے کہ قلم و زبان سے وابسطہ ہر عمل کو سنجیدگی سے دامن گیر کیا جاتا ہے، اور بندوق و تشدد کے تمام زاویوں کو نظرانداز کرکے اسے ایک ڈبے میں بند کرکے اس پر مہم جوئی لکھی جاتی ہے۔ ہر وہ عمل سنجیدہ و پختہ ہے، جو تاریخی تسلسل، زمینی حقائق، مستقبل کے تعین، اور دشمن کے حقیقتِ حال کو باریکی سے جان کر، چنا جائے اور اسکا کماحقہ استعمال کیا جائے۔ اگر راہ بندوق نکلتی ہے تو وہ مسلح جدوجہد مہم جوئی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور دانشمندانہ عمل ہے، اور قلم نکلتی ہے تو قلم اور اگر زبان نکلتی ہے تو زبان۔ ایسے بھی حالت نکلتے ہیں کہ جہاں قلم و زبان مہم جوئی کہلائے جاسکتے ہیں۔ جناب کاغذ چاٹنے سے پہلے اپنی مٹی پھانکنی پڑتی ہے، شاید کوئی اسکاٹ لینڈ میں مسلح جہد کی بات کرے آپ اسے مہم جو کہہ سکتے ہو کیونکہ انہیں ریفرنڈم کا پورا حق دیا گیا ہے لیکن ذرا اپنی مٹی پھانک کر بلوچستان کو دیکھو یہاں اور راستہ ہی کیا نکلتا ہے؟ اسی لیئے سب سے سنجیدہ، معتبر اور کماحقہ رستہ ہی مسلح جہد ہے، جو ہرگز ہرگز مہم جوئی نہیں اور جو بھی اسے مہم جوئی و غیرسنجیدگی کے خانوں میں ڈھالنے کی کوشش کرے گا وہ دراصل انکے خوف و شکست کا لاشعوری اظہار ہوگا۔
ہزاروں شہداء اور ہزاروں لاپتہ افراد کی قربانی، تکلیف، اذیت کے بعد اگر کوئی آکر نام نہاد قوم پرست پارٹیوں، مایوس کامریڈوں اور غازیوں کی طرح آج قومی آزادی کی جنگ یا جنگجو دوستوں کو جذباتی مہم جو کہہ دے یا سمجھے خدا کرے وہ خود کیوں آزادی پسند نہ ہو، پھر یہ حق بنتا ہے کہ جسطرح ہم نیشنل پارٹی و بی این پی کو نام نہاد قوم پرست کہتے تھے، ان کو بھی نام نہاد آزادی پسند کہنا بہتر ہوگا۔
باقی آپ چھوڑ دیں، آج ہمارے بردار و ہمسایہ سندھی قوم میں ایک درجن سے زائد پارٹیاں ہیں، جو آزادی کی بات کرتے ہیں، آزادی کے نام پر جلسہ، جلوس و سیمینار منعقد کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، آزادی پر بڑی بڑی تحریریں لکھتے ہیں، شہیدوں کو یاد کرتے ہیں، مگر کھل کر سندھی مسلح جدوجہد کو مہم جو، جذباتی اور انتہاء پسندی کہتے ہیں اور باقی سرگرمیوں کی خاطر ریاست ان کا آج تک ایک بال بھی بیکا نہیں کرتا، پھر کیا یہ آزادی پسند اور حقیقی قوم پرستی کے زمرے میں شمار ہونگے؟ کیا یہ ہے سنجیدہ اور پختہ سیاست؟ اگر جواب جی ہاں میں ہے، تو اس سنجیدہ و پختہ سیاست سے دشمن کو سندھ میں کیا تکلیف اور پریشانی ہوئی ہے؟
آج بہت سے لوگ خود گواہ ہیں کہ پاکستانی قلی کیمپ میں جو دوست قید تھے، انہیں آئی ایس آئی خود نصیحت کیا کرتا تھا اور یہ آفر بھی ہوتا تھا کہ جاؤ پاکستان کو گالی دو، آزادی کی بات کرو، تقریرکرو، تحریر لکھو، نعرے لگاو، جدھر بھی آپ کا دل چاہے یورپ میں، بلوچستان میں، کراچی میں، اسلام آباد میں جلسے کرو، بس مسلح جدوجہد سے دور رہو، اس کا نہ حمایت کرو، نا حصہ بنو، جسے آپ سنجیدہ سیاست کا نام دے رہے ہو، اس سنجیدہ سیاست کا درس خود دشمن بھی دے رہا ہے۔
میں ایک بار پھر دہراؤں گا، اگر سنجیدہ سیاست کا معیار و تعریف یہ ہے، تو ہم غیر سنجیدہ اور جذباتی تھے اور جذباتی رہینگے، کیونکہ سچائی اور حقیقت الفاظ کی ہیرہ پھیری، جواز، بہانوں، من گھڑت دلیلوں سے کبھی بھی چھپ نہیں سکتا ہے۔ اپنی مایوسی، تھکاوٹ، خاموش راہ فراریت، خاموش کمپرومائز اور خوف کواگر سنجیدگی و پختگی، بالیدگی کے پردوں میں لپیٹ دینا ممکن ہوتا تو اس وقت دنیا کے تاریخ میں تمام بزدل اور مایوس انسان سنجیدہ و پختہ انسان کہلاتے۔
میں پھر وضاحت کرتا ہوں، بالکل قومی تحریک میں مسلح جدوجہد کے ساتھ، ہمہ جہت جہدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے، چاہے وہ سرفیس سیاست ہو، سفارت و صحافت ہو، یا ادب وغیرہ لیکن ان کو پہلے خود سمجھنا، سیکھنا، جاننا بنیادی شرط ہے۔
صرف باتوں کی حد تک نہیں، عملاً کچھ کرنا اور دکھانا، رات بھر بیٹھنا، دوستوں کے ساتھ گپ شپ و ٹائم پاسی، فیسبک یا گیم کھیلنا، چائے پر چائے، سگریٹ پر سگریٹ پھر سارا دن نیند میں مدہوش رہنا، پھر بھی سیاست، سفارت، ادب، صحافت کا نعرہ مستانہ بلند کرنا۔ کم از کم ہم جیسے جذباتی کم علم بندوں کی سمجھ میں نہیں آتا یہ معیارِ سنجیدگی۔
یہ سیاست نہ بلوچ قوم کا پہلے درد کا دوا تھا اور نہ ہی آج ہے، اس سے دشمن بھی خوش، ہم بھی خوش، صرف وقت پاسی اور وقت کو دھکا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، بالکل اسی طرح مسلح جہدوجہد کا بھی اپنا معیار و تقاضہ ہوتا ہے، ہر وقت متحرک، چست و چوبن، مہارت کے ساتھ سرگرم عمل رہنا، ایک منٹ اپنے کام اور ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہنا، وقت کی پابندی، ہر وقت چوکس رہنا، بہتر سے بہترین جنگی منصوبہ بندی کرنا و جنگی تخلیق میں مگن رہنا اور رسک اٹھانے کی جرات رکھنا، اور بروقت فیصلہ کرنا اہم ہوتا ہے، نہیں تو صرف بس جنگ کے ساتھ وابستگی بھی وقت پاسی ہے، جو ضائع شدہ سرمچاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
بہرحال مسلح جہدوجہد ہو، غیر مسلح ہو، جہدوجہد کا ہر جز لازمی ہے، مگر ہر جز کی تعریف و معیار اپنی ذاتی خواہشات، ذاتی سوچ، ذاتی مزاج سے نہ ہو، کم از کم علمی، تحقیقی بنیاد اور حقائق کے بنیاد پر ہو، اس میں ہلڑبازی اور ملاوٹ نہ ہو۔
کوئی اگر کہہ دے مجھے جہاز چلانا نہیں آتا ہے، میرے بس کی بات نہیں، میں سائیکل چلاسکتا ہوں، پھر وہ سائیکل کو صحیح طرح کم از کم چلائے، یہ بھی درست نہیں پھر وہ جو صحیح صحیح ابھی سائیکل تک نہیں چلا سکتا اور جہاز چلانے سے بالرضا درستبردار ہوچکا ہے، وہ کہے کہ جہاز چلانے والا جہاز ہی غلط چلا رہا ہے، اور میں ساری سواریاں سائیکل پر اٹھاسکتا ہوں۔
اس مسئلے پر تھیسز لکھنے کی ضرورت بھی نہیں، یہ بات ایک سادہ سے ایماندارانہ تجزیئے سے سمجھ آجاتی ہے کہ بلوچستان کے تمام مسئلوں کا حل آزادی کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہ آزادی طاقت کے زور پر چھینی گئی اور طاقت کے زور پر واپس حاصل کی جائیگی۔ جس کیلئے آپکو اپنے طاقت اور لڑنے کے استطاعت میں حددرجہ اضافہ کرتے جانا ہے۔ ابھی اس حقیقت کو کوئی قبول کرے اسے سنجیدگی کہے، حقیقت پسندی کہے تو بھی حقیقت اپنی جگہ سالم رہے گی، اگر مہم جوئی اور جذباتی پن کہے پھر بھی حقیقت اور راہ وہی رہے گا اور اسی پر ہی چلنا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔