آواران سے گرفتار چار خواتین بازیاب ہوگئے لیکن خواتین کے رہائی سے مشروط مغوی لیویز اہلکار تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
چند روز قبل ضلع کچھی کے علاقے سے چار لیویز اہلکاروں کو اس وقت مسلح افراد نے حراست میں لیا تھا جب وہ سڑک کی تعمیر کے کام کی حفاظت پر معمور تھے۔
لیویز اہلکاروں کو حراست میں لینے کی ذمہ داری بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم یونائٹڈ بلوچ آرمی نے لی ہے اور ضلع آواران سے گرفتار شدہ چار بلوچ خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ کا بیان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کے جانب سے خواتین کے رہائی کیلئے ریاست کو دس دن کی الٹی میٹم دی جارہی ہے، بصورت دیگر ڈھاڈر کے علاقے سنی سے گرفتار لیویز اہلکاروں کو مار دیا جائے گا۔
بعدازاں یونائٹڈ بلوچ آرمی نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں لیویز اہلکاروں پر حملہ ہوتے اور گرفتار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ وڈیو میں آگے جاکر قطار میں کھڑے یہ اہلکار بلوچی زبان میں باری باری اپنا تعارف کرانے کے بعد اپنے رہائی کے بدلے خواتین کو رہا کرنے کی اپیل کرتے سنے جاسکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آواران سے حمیدہ ولد میر دلبود سکنہ زیلگ اور نازل ولد میر درمان سکنہ پیراندر کو پاکستانی فورسز نے لیاقت ساجدی کے گھر پر چھاپے کے دوران حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جبکہ اس سے کچھ ہی گھنٹے قبل ہارون ڈن سے فورسز نے بزرگ خاتون بی بی سکینہ اور ماشی کے علاقے سے سید بی بی کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا تھا۔
بلوچ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں نے مذکورہ خواتین پر لیویز حکام کی جانب سے لگائے الزامات رد کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
دس روز کے الٹی میٹم سے قبل ہی مذکورہ بلوچ خواتین آج خضدار میں رہا ہوئے ہیں تاہم تاحال لیویز اہلکاروں کی بدلے میں رہائی کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔
سرکاری ذرائع یا بلوچ مسلح تنظیم سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیا ان خواتین کی رہائی لیویز اہلکاروں کے بدلے میں ہوئے، یا سیاسی و سماجی جماعتوں کے جاری احتجاج کی وجہ سے ممکن ہوسکی ہے۔