حبیب طاہر ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں بلوچستان میں حالیہ دنوں میں چند خواتین کو جس طرح میڈیا میں پیش کیا گیا وہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ ان کا اشارہ گزشتہ دنوں چار بلوچ خواتین کی گرفتاری کی خبر کی جانب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین پسماندہ علاقے کی ہیں اور بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کو اس طرح پیش کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کمیشن نے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی بلوچستان کے حوالے سے جاری کی ہے جس میں لاپتہ افراد کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کی ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی اور دیگر انسانی حقوق کے مسائل کو سامنے لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہماری اطلاعات کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس کا دعویٰ کہ آواران سے گرفتار کردہ خواتین کو پہلے لاپتہ کیا گیا بعد میں گرفتاری ظاہر کر کے مقدمہ درج کیا گیا۔‘
حبیب طاہر نے کہا کہ یہاں کے حالات کی بہتری کے لیے اس طرح کے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا اور یہاں کے عوام سے بات کرنا ہوگی اور اصل مسائل کو ترجیح دینا ہوگی جس کے بغیر امن کی بحالی مشکل ہے۔
حکومتی موقف
دوسری جانب بلوچستان حکومت کے اختیاردار سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے فوکل پرسن عظیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں غیرملکی عناصر کا بہت بڑا ہاتھ ہے جبکہ بدقسمتی سے ہم داخلی طور پر بھی انتشار کا شکار رہے ہیں اور لاپتہ افراد کے مسئلے کا فائدہ دشمن قوتوں نے زیادہ اٹھایا۔‘
عظیم کاکڑ کے مطابق حکومت کے قائم ہونے کےساتھ جب جام کمال نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی ترجیحات کا حصہ ہے۔
ان کے بقول نہ صرف صوبائی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات شروع کر دیے بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن نے بھی یہاں آ کر سماعت شروع کی۔
عظیم کاکڑ نے بتایا کہ حکومت چونکہ قبائلی روایات کی پابند ہے اس لیے وہ نہیں چاہتی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین، خواتین اور بچے سڑکوں پر بیٹھے رہیں جس کے لیے انہوں نے حکومت کے چھ ماہ پورے ہونے کے بعد لاپتہ افراد کی تنظیم کےساتھ بات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا۔
عظیم کاکڑ کے مطابق ’ہم نے لاپتہ افراد کی تنظیم کو یقین دلایا کہ ہم ثابت کریں گے کہ حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے جس کے نتائج کی گواہی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی دیتے ہیں۔‘
عظیم کاکڑ کے مطابق بلوچستان حکومت کی کوششوں سے اب تک چار سو لاپتہ افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے عظیم کاکڑ نے بتایا کہ ہمارے اعداد وشمار کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے نو سو کے قریب ہے جبکہ بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیےاسے زیادہ ظاہر کرتی ہیں۔
گوکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سنجیدہ ہے تاہم انسانی حقوق کمیشن سمجھتی ہے کہ اس مسئلہ کو مزید سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اب بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔