کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3803 دن مکمل

152

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3803 دن مکمل ہوگئے۔ وکلاء برادری کے افراد نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین حبیب طاہر، فرید شاہوانی، شمس کاکڑ کے ہمراہ احتجاج کیمپ میں شرکت کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ نوجوان محمد اشرف کے لواحقین کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا اور ان کے گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کیے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ریاست کی طرف سے بلوچوں کی نسل کشی کے مختلف حربے استعمال کررہا ہے۔ بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں، بلوچستان کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں اس وقت ریاست کے خفیہ اداروں کا غلبہ نہیں، مکران سے بولان اور ڈیرہ بگٹی تک بلوچ سول آبادیوں پر بلا امتیاز ریاستی کاروائیاں گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ فوجی آپریشنوں کے دوران بلوچ سول آبادیوں کو گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے دور میں فوجی آپریشنوں اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاحال جاری ہے جبکہ اس دوران بلوچ خواتین و بچوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ فوجی آپریشنوں کے نام پر بلوچ چادر و چاردیواری کے تقدس کی پامالی فورسز کی روزانہ کے مشقوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ پاکستانی ریاست کے سامنے حق کے لیے آواز اٹھانے والا ہر شخص قابل گردن زنی قرار دیا جاچکا ہے جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والے لواحقین و دیگر افراد کو بھی پاکستانی اداروں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

دریں اثناء ضلع کیچ کے علاقے بالگتر کے رہائشی لاپتہ نوجوان محمد اشرف کے والد نے احتجاجی کیمپ آکر ان کی تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کیے۔

لاپتہ محمد اشرف کے والد نے ان کے جبری گمشدگی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ محمد اشرف ولد نیک سال کو 15مئی 2019کو گولیمار چوک کے قریب ماشاء اللہ پلازہ بروری روڈ کوئٹہ سے میرے سامنے صبح سات بجے کمرے سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔

نیک سال کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کوفرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے حراست میں لیکر آنکھوں پر پٹی باندھی اور گاڑی بٹھایا اور اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد ہمیں ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلوم نہیں مل سکی ہے۔اس دوران ہم نے ملا برکت اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء ثناء بلوچ سے رابطہ کیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے جبکہ بروری روڈ تھانے میں ایف آئی درج کرنے گئے تو انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا۔