بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3798 دن مکمل ہوگئے۔ وکلاء برادری سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر حملہ، لاپتہ کرنا و دیگر بہمانہ حربوں کے ذریعے ریاستی ادارے بلوچ معاشرے کو مصنوعی طریقے سے انتہاء پسندی کی جانب دھکیل کر بلوچ پرامن جدوجہد کرنے والوں کے خلاف اپنی انتہاء پسند پروکسی تنظیمیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی کوشش ہے کہ بلوچ خواتین پر حملوں، سیاسی عناصر کی سرپرستی و معاونت کے ذریعے بلوچ معاشرے کو دلدل میں دھکیلا جائے اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم سے کم اس طرح کا مصنوعی جھوٹا تاثر دیا جائے اور پھر اس کی سدباب کے نام پوری دنیا سے فوجی معاشی امداد لے کر بلوچ قومی جدوجہد کے خلاف استعمال کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غور طلب اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ بلوچ خواتین پر حملہ اور جبری لاپتہ کرنا جھوٹے مقدمات بنانا اور انسانیت سوز ریاستی حرکات کے خلاف جس طرح شدید ردعمل یا موثر حکمت عملی بلوچ پارٹیوں کی طرف سے آنا چاہیئے تھا وہ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا جیسے جدید موثر اور آزاد ذرائع کو اپنے ہی سرفروش ساتھیوں و فطری اتحادیوں پر کیچڑ پھینکنے کے لیے استعمال کرنے والے بلوچ دانشوروں کو اس مرعوب مہم سے نہ جانے کب فرصت ملے تاکہ وہ کچھ توجہ ریاستی حربوں کو بے نقاب کرنے پر بھی مرکوز کرسکیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ پرامن جدوجہد کرنے والے تنظیموں میں موقع پرستوں کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ہمیں ہر قدم پر ہوشیار رہنا ہوگا، درباری ذہنیت کو اپنے بیچ میں سے نکالنا ہوگا بعض سیاسی شخصیات کی قربت کی خاطر قوم کے مفاد کو داؤ پر لگانے والوں سے دور رہنا ہوگا، ہماری تعداد کم ہو اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن ایک بار موقع پرست ہمارے درمیان گھس بیٹھے تو وہ اختلاف کو ضرور ہوا دینگے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لاکھوں بلوچوں کے خون اور جذبات کی بنیاد پر جس نرگسیت کی بنیاد ڈالی جارہی ہے یہ تباہی کا باعث ہے، ذہنی عیاشی کے ذریعے قوم کی خدمت نہیں ہوسکتی چند موقع پرستوں کو یہ حق نہیں دینا چاہیے۔