بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3807 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماء خالدہ ایڈووکیٹ نے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی جس کے رونماء ہونے کے بعد ایک عمل شروع ہوتی ہے جو حق اور سچ کے لیے ہوتی ہے، ظلم سے لہو بہتا ہے تو اس میں حق اور سچائی کی بُو آتی ہے، ظلم کے خلاف نفرت بڑھتا ہے تو تشدد کے ذریعے ظلم کا جواب واپس اس ظالم کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جو ظلم کی موت اور مظلوم کی زندگی کی ضامن بن جاتی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ کچھ حادثات افسوسناک ہوتے ہیں جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں، گذشتہ دنوں آواران سے پاکستانی فورسز نے بلوچ خواتین کو لاپتہ کرکے بعدازاں جھوٹے مقدمات میں پھنساکر بعد میں رہا کردیا وہ زخم ابھی تازہ تھے کہ کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے خواتین و بچوں کو پاکستانی فورسز نے لاپتہ کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات انتہائی تشویشناک ہے اس حوالے سے ہم اپنے خدشات کا اظہار بارہا کرچکے ہیں، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو کسی بھی گھر میں کوئی خاتون محفوظ نہیں رہے گا۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ کچھ پاکستانی ایجنٹ اور کاسہ لیس جو بلوچ خواتین کو پنجابی حکمرانوں کی من گھڑت اور خود ساختہ روایات کے تحت انہیں جکڑ کر پابند کرنا چاہتے ہیں ان کاسہ لیس دلالوں میں سے کچھ نمایاں چہرے واضح ہیں، جب سے بلوچ وطن پر جارحیت اور قبضہ ہوئی ہے ہماری روایات نہ صرف پامال ہوئی ہے بلکہ اب باقی نہیں بچی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین و بچوں کے جبری گمشدگیوں کیخلاف بلوچ سیاسی و سماجی حلقے بھرپور آواز اٹھائے اگر ہم اسی طرح ہر واقعے پر محض زبانی کلامی تک محدود رہے تھے تو ریاست اس طرح کے اقدامات سے نہیں ہچکائے گی۔