بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں نصیر آباد سے علاج کی غرض سے کوئٹہ آنے والے بلوچ خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے آئین و قانون کی پامالی دو دہائیوں سے جاری ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصوں میں خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری میں تشویشناک اضافے نے خوف کی ماحول کو جنم دیا ہے جس نے بلوچستان میں بسنے والے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ہے جسکی وجہ سے بلوچستان میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں سات سالہ امین ولد حاجی دوست علی بگٹی، ساٹھ سالہ حاجی دوست علی ولد ملوک بگٹی ، اسی سالہ فرید بگٹی، عزتوں بی بی بنت ملحہ بگٹی، مراد خاتوں بنت نزغو بگٹی اور مہناز بی بی بنت فرید بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے جنہیں کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے لاپتہ کیا گیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اجتماعی سزا کے طور پر جاری خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری کا تسلسل باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت شروع کیا گیا ہے اس واقعے سے قبل بھی متعدد بلوچ خواتین کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا تھا جو عالمی قوانین کی بد ترین خلاف ورزی میں شمار کی جاتی ہیں۔
کچھ دن پہلے بھی ڈیرہ بگٹی سے خواتین و بچوں کو لاپتہ کیا گیا تھا جبکہ آواران سے بھی چار خواتین کو گمشدہ کرکے پھر انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا اور عوامی دباؤ کے تحت انہیں میڈیا میں غلط مقدمات میں پھنسا دیا گیا تاکہ سیکورٹی اہلکار کا جرم چھپ سکیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں اس طرح کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جبر و تشدد کے امتزاج سے بلوچستان ایک نوگو ایریا کی شکل اختیار کرچکا ہے جس نے ڈر اور خوف کو بھرپور پنپنے کا موقع فراہم کیا ہے۔سیاست اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد خواتین اور بچوں کی گرفتاری اجتماعی سزاؤں کا بھیانک تسلسل ہے جسکے نتائج بلوچستان کے مستقبل کے لئے حد درجہ خطرناک ہے۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن بلوچستان حکومت،وفاقی حکومت اور متعلقہ ذمہ داروں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ ہزار گنجی سے لاپتہ ہونے والے بلوچ خواتین کو بازیاب کروایا جائے۔اگر لاپتہ بلوچ خواتین کو بازیاب نہیں کیا گیا تو احتجاج کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا جائے گا۔