چیخ و پکار
غلام رسول آزاد
دی بلوچستان پوسٹ
کھڑکی کے سامنے والے بالکونی میں روز رونما ہونے والا ایک منظر جو سامنے والے گھر کی ہے۔
وہ گاؤں جہاں کبھی ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھی، موج و مستی پیار و محبت اور امن تھا، ہر صبح کی پہلی سورج کی کرن کیساتھ چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑوں کی طرف چرانے لے جایا کرتا تھا، ان باتوں کو محسوس کرنا بھی ان خوشیوں میں شامل ہوتی ہے, وہ منظر جو سامنے والےگھرکی ہے۔
نہ چاہتے ہوئےبھی میں روز یہ منظر دیکھتا ہوں، کیوںکہ کچھ یادیں ہیں، جو اس ویران گھر اور گاؤں کی ہیں۔ جو مجھے کھڑکی کے سامنے لانے پر مجبور کرتی ہیں۔
وہ گھر جو جل چکا ہے، مکمل خاک ہو چکا ہے، مجھے یاد ہے، جب گھر جل رہاتھا میں بالکونی سے دیکھ رہا تھا، کچھ لوگ جو خوفناک لباس زیب تن تھے اور گھر کے اندر داخل ہوگئے اور تھوڑی دیر بعد اندر سے رونے کی چیخ و پکار کی آواز آرہی تھی، اور گاؤں میں ہر طرف خوف کے اس عالم میں افراتفری تھی، لوگوں کے دلوں میں ایک عجیب و غریب بغاوت اُٹھ رہی تھی۔
آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا، جب گھر کو جلانے سے پہلے کتابوں کو جلایا گیا، گھر کے اندر سے ایک عورت کی آواز آرہی تھی کے ان مقدس کتابوں کو کیوں جلا رہے ہو، مگر مقدس چیزوں کے ساتھ ساتھ ہر وہ خوشی و غم کو بھی جلایا گیا جو اس گھر کے ساتھ جوڑے ہوئے تھے۔
جب لوگوں کے دلوں میں ایک عجیب و غریب بغاوت اُٹھ رہا تھا تو یہ حالت بدلتی ہوئے موسم کی طرح ہر ایک گھر کی طرف بڑھتاجارہاتھا، جہاں لوگوں کے مال و مویشیوں کو بھی نہیں بخشا گیا، اور لوگوں کو لاپتہ کیا گیا، لوگوں کو گھروں سے در بدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔
وہ گاؤں جہاں کبھی کسی کی آہ کی آواز تک سننے کو نہیں ملتی تھی، یہاں لوگ ایک دوسرے سے الفت کرتے تھے، درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کے غمخوار ہوا کرتے تھے۔
مگر آج چیج و پکار کی لپیٹ میں ہے، ہر طرف غمزدہ اور بےبسی کا عالم ہے، ویران سا گاؤں میری تمام خوشیاں کو کھا گیا ہے، خوفناک لباس والے۔
اب صبح کی سورچ پہلی کرن تو لاتی ہے، مگر چرواھے چرانے نہیں جاتے، بھیڑ بکریاں اب نہیں رہے۔ چڑیوں کی چہکنے کی آواز اب نہیں آتی، اب وہ امن و محبت نہیں رہی، اب وہ بدلتے موسموں کی مہک نہیں آتی، سر سبز درختوں کی ٹہنیاں اب جل چکے ہیں، چشمے خشک ہوچکی ہیں، ہر طرف بس بو آتی ہے تو صرف خون کی۔ یہ خون کس کا خون ہے؟ کس کا لہو؟ کیوں گرا ہے؟ یہی وہ چیخ ہے جو ہر طرف گونج رہی ہے، پر نہ سننے کے لیے کوئی کان ہے اور نہ محسوس کرنے کے لیے کوئی رہ گیا ہے ۔ اور نہ کھڑکی کے بالکنی سے وہ گھر اب دکھتا جو میں وہاں کھڑا یہ منظر اپنے گمان میں رکھتا اور موج مستی کا نظارہ کرتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔