پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔
حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست کرتے ہوئے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟، آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔
جسٹس نذر اکبر نے پراسکیوٹر سے آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ سے کہا کہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے تو پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔
مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے، اس لیے سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔
عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی اور تفصیلی فیصلہ 38 گھنٹہ میں سنایا جائے گا۔