دشمن ریاست معصوم افراد کو نشانہ بنارہی ہے کیونکہ اس میں بلوچ سرمچاروں سے لڑنے کی سکت نہیں، ان خیالات کا اظہار بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے کوئٹہ سے بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا نمائندے کے مطابق بشیر زیب بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آواران واقعہ کے بعد اب پاکستانی ریاست نے کوئٹہ سے بھی بلوچ خواتین اور ایک کمسن بچے کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے یہ خواتین علاج کیلئے کوئٹہ آئے ہوئے تھے۔
بی ایل اے سربراہ کا کہنا ہے کہ دشمن ریاست کسی بھی انسانی قدر کو خاطر میں لائے بغیر معصوم افراد کو نشانہ بناتی ہے کیونکہ اس میں بلوچ سرمچاروں سے میدان جنگ میں لڑنے کی سکت نہیں۔
After Awaran, Pakistani authorities have now abducted Bugti women & a child from Quetta, who had come to the city for medical treatment. The enemy state has no regard to humanistic values & targets innocents when it fails to compete with Baloch freedom fighters on battlefield.
— Bashir Zeb Baloch (@BashirZebBaloch) December 14, 2019
خیال رہے گذشتہ رات کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے نصیر آباد سے آئے خواتین و بچوں سمیت چھ افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
ذرائع کے مطابق جبری طور لاپتہ کیے گئے افراد میں تین خواتین اور ایک بچہ شامل ہے جن کی شناخت سات سالہ امین ولد حاجی دوست علی بگٹی، عزتوں بی بی بنت ملحہ بگٹی، مراد خاتوں بنت نزغو بگٹی، مہناز بی بی بنت فرید بگٹی، ساٹھ سالہ حاجی دوست علی ولد ملوک بگٹی اور اسی سالہ فرید بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔
واضح رہے پندرہ روز قبل آواران اور نصیر آباد سے خواتین و بچوں سمیت 15 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ آواران سے لاپتہ چار خواتین کو بعد ازاں لیویز فورس نے منظر عام پر لاکر دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ خواتین سے اسلحہ و گولہ بارود برآمد کی گئی ہے جس کے تحت ان پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: پیہم ستم رسیدہ، بلوچ زادیاں – ٹی بی پی فیچر رپورٹ
آواران سے خواتین کی گرفتاری پر سیاسی، سماجی اور بلوچ مسلح جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کا اظہار کیا گیا جبکہ اس دوران مسلح تنظیم کی جانب سے لیویز فورس کے چار اہلکاروں کو بھی حراست میں لیا گیا تاہم بعد ازاں خواتین کو سرکاری حکام کی جانب سے رہا کردیا گیا۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (بی ایچ آر او) نے کوئٹہ سے لاپتہ خواتین و بچوں کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے آئین و قانون کی پامالی دو دہائیوں سے جاری ہیں لیکن گذشتہ کچھ عرصوں میں خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری میں تشویشناک اضافے نے خوف کی ماحول کو جنم دیا ہے۔
بی ایچ آر او کے بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں نے بلوچستان میں بسنے والے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ہے جسکی وجہ سے بلوچستان میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
علاوہ ازیں وومن ڈیموکریٹک فرنٹ بلوچستان کی جانب سے خواتین و بچوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے اور واقعے میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سرکاری حکام کی جانب سے تاحال کوئٹہ سے جبری طور لاپتہ خواتین و بچوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا ہے تاہم ماضی میں اس نوعیت کی گرفتاریوں کی تصدیق کی جاچکی ہے۔