پارلیمانی لیڈرز اور بلوچ جہد کاروں میں فرق – آزاد بلوچ

184

پارلیمانی لیڈرز اور بلوچ جہد کاروں میں فرق

تحریر: آزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پارلیمانی لیڈرز اور بلوچ جہد کاروں میں بے شمار فرق ہیں لیکن شاید میں اپنے کم علمی کی وجہ سے اس فرق کو پورا بیان نا کرسکوں۔

آپ سب کو بخوبی علم ہوگا کے پارلیمانی لیڈرز کو تب عوام کی ضرورت پڑتی ہے، جب انکو پارلیمنٹ میں جانے کے لئے چند ووٹوں کی ضرورت ہو۔ وہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اس وقت تو انکے ووٹ وصول کر کے اقتدار میں آ جاتے ہیں، جب وہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے ذمہ داریوں پے پورا اترنے کا حلف اٹھاتے ہیں، اس کے بعد عوام اپنے لیڈر سے ہزاروں امید لے کر پانچ سال گذار تو دیتے ہیں لیکن نام نہاد لیڈر پانچ سال کے لئے غائب ہو جاتا ہے۔

صرف یہاں تک نہیں یہ نام نہاد لیڈرز کا اس وقت خاموش رہنا سوالیہ نشان ہے، جب ان کے ہی بلوچ ماں، بہنوں کے عزتوں کو تار تار کر کے زندانوں میں طرح طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے ہوں اور وہ پھر بھی چپ کا روزہ رکھے ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کے ظالم ریاست اور نام نہاد لیڈرز برابر کے شریک جرم ہیں۔

جب کہ بلوچ جہد کار روز اول سے جب سے ظالم ریاست پاکستان نے بلوچ سرزمین پے قدم رکھا ہے تب سے اس کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔

بلوچ جہدکاروں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، چاہے وہ شہید بابو نوروز بلوچ کے شکل میں ہو یا شہید نواب اکبر بگٹی کے، شہید بالاچ مری کے، شہید استاد اسلم بلوچ کے یا دیگر ہزارو بلوچ شہیدوں کے شکل میں ہو۔ لیکن مجھے آج تک کوئی ایسا پارلییمانی لیڈر نظر نہیں ایا جو بلوچ جہدکاروں جیسا اپنے وطن و قوم کے لئے ایسے قربانیاں دی ہو۔

گذشتہ روز فورسز کے ہاتھوں آواران اور ڈیرہ بگٹی سے بلوچ خواتین کی گرفتاری کے بعد دہشتگرد ظاہر کرنے پر بھی پارلیمنٹ پرست لیڈروں کا ایک بیان تک نہ آنا بھی بلوچ عوام کے دلوں میں انکی ریاست کے ساتھ ملنے کی شق کو یقین میں بدل دیا ہے۔

آج بھی ہزاروں بلوچ جہدکار ظالم ریاست کا مقابلہ کرنے کے لئے محاذ پے موجود ہیں اور اپنی پوری قوت کے ساتھ دشمن کو شکست سے دو چار کر رہے ہیں اور یہ عہد کر چکے ہیں وہ اپنے حصول مقصد تک اپنے کاروائیاں جاری رکھیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔