بلوچستان میں طالب علموں کے مسائل، پریشانی کا احوال ہم ہر مرتبہ آپکی مدد و تعاون سے اعلیٰ حکام تک پہنچاتے آرہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی جنسی حراسگی کا مسئلہ ہو یا بولان میڈیکل یونیورسٹی کا مسئلہ ہو، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ہر قدم پہ طلبا و طالبات کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتی آرہی ہیں اور ہمیشہ کرتی رہے گی – ان خیالات کا اظہار بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
بی ایس اے سی رہنماوں کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس کا مقصد بلوچ طالب علموں کی اضطرابی کیفیت یا فیسوں میں اضافے کے متعلق نہیں بلکہ آج کے پریس کانفرنس کا مقصد بلوچستان کے سب سے سنگین مسئلے کے خلاف آواز اٹھانا ہے جس سے بلوچ طالب علموں کی اکثریت متاثر ہے اور وہ مسئلہ بلوچ طالب علم اور ہمارے تنظیم کے مرکزی رہنما عبدالوہاب بلوچ ولد سیاھل سکنہ گوادر کو ماورائے عدالت گرفتاری اور لاپتہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عبدالوہاب بلوچ کو دس دسمبر دو ہزار انیس کو گوادر سے ان کے دوست کے ہمراہ لاپتہ کیا گیا ہے اور آج دو ہفتے گزرنے کے باوجود انہیں منظر عام پہ نہیں لایا گیا جبکہ ان کے ہمراہ لاپتہ ہونے والے ساتھی کو دوسرے دن بازیاب کردیا گیا۔
بی اسی اے سی رہنماوں کا کہنا تھا کہ عبدالوہاب بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہاب بلوچ کو غلط فہمی کی بنیاد پر لاپتہ کیا گیا ہے جن کو تفتیش کے بعد رہا کردیا جائے گا لیکن آج دو ہفتے گزر گئے ہیں اس کے باجود تنظیم کے مرکزی رہنماء کی گرفتاری کو نہ ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں بازیاب کیا گیا ہے بلکہ صرف زبانی کلامی بازیاب کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہیں جس سے اہلخانہ اور تنظیمی ممبران سمیت بلوچ طالب علموں میں پریشانی اور غم کی کیفیت پائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عبدالوہاب بلوچ حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سے گریجوئٹ کرچکے تھے اور ماسٹر کے لئے ایڈمیشن کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن انہیں غیر قانونی طریقے سے لاپتہ کرکے حبس بے جا میں رکھنا انسانی حقوق اور حکومت پاکستان کے آئین کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاب بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری کی وجہ سے اہلخانہ سمیت ان کے طالب علم ساتھی اور تنظیمی ممبران ذہنی دباؤ کا شکار ہے کہ ایک پر امن طلباء تنظیم کے رہنماء کو کیوں اور کس بنیاد پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
رہنماوں کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں طالب علموں کی حق تلفی دو عشروں سے جاری و ساری ہے، تعلیمی اداروں میں سہولیات کی عدم فراہمی، ، جنسی حراسگی کیس کا رونماء ہونا، فیسوں میں اضافہ، انتظامیہ کا رویہ اور دیگر کئی معاملات میں طالب علموں کو پریشان کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ایک پرامن طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماء کی جبری گمشدگی پر ہم چپ سادھ نہیں سکتے، وہاب بلوچ سے قبل ہماری تنظیم کے سابق وائس چئیرمین فیروز بلوچ کو بھی ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا ہے جس کا تاحال کچھ پتہ نہیں۔ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے بلوچستان کے عوام اکیسویں صدی کے گلوبل ولیج میں کمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کیونکہ ایک طرف زندگی کے ہر شعبے میں سہولیات کا فقدان ہے اور دوسری طرف ایک خوف و پریشانی کا ماحول ہے جس نے بلوچ معاشرے میں سیاست اور ترقی کی راہوں کو مسدود کرکے رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالب علموں کی جبری گمشدگی آج کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دہائی سے طالب علموں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے جس کا واضح مقصد طلباء سیاست کے راستوں کو بند کرنا ہے اور وہاب بلوچ کی گمشدگی بھی اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔
بی ایس اے سی رہنماوں کا صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر آپ کی توسط سے وفاقی حکومت، حکومت بلوچستان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ذمہ داران سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے تنظیم کے مرکزی رہنماء وہاب بلوچ اور سابقہ وائس چیئرمین فیروز بلوچ کو منظر عام پہ لایا جائے، اگر یہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں ایک انسان کی طرح قانونی حقوق دیئے جائیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرسکیں۔ اگر ملک کے ذمہ دار ادارے طالب علموں کی جبری گمشدگی پر ایکشن نہیں لینگے تو بلوچستان میں ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ پسماندہ بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر لانے والے طالب علم بغیر جرم کے سزا بھگت رہے ہیں اور بدقسمتی سے انہیں قانونی حقوق بھی فراہم نہیں کیئے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کے لیے احتجاج
انہوں نے کہا کہ ہم آپ صحافی حضرات سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کی غیر آئینی و غیر قانونی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ متعلقہ ادارے وہاب بلوچ کی بازیابی کے لئے کردار ادا کرسکیں۔
رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی عبدالوہاب سیاہل کی ماورائے عدالت گرفتاری کو اجاگر کرنے کے لئے آج شام پانچ بجے سے گیارہ بجے تک سوشل میڈیا میں آن لائن کمپین چلائے گی جس میں تمام طالب علم تنظیموں، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے اراکین اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں سے اپیل کی جاتی ہیں کہ وہ کمپئین میں حصہ لیکر ایک طالب علم کی زندگی اور دیگر طالب علموں کے مستقبل کو بچانے کے لئے کردار ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: جامعے سے چھاونی تک – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے رہنماؤں کو بازیاب نہیں کیا گیا تو اپنے احتجاج کے عمل میں تیزی لائیں گے اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور پریس کانفرنس کے ذریعے عبدالوہاب بلوچ اور فیروز بلوچ کی بازیابی کو اجاگر کرینگے۔