نعرہ کونسا – عمران بلوچ

348

نعرہ کونسا

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں مختلف شکلوں میں انقلاب آئے، جن میں سے کئی کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو کچھ ناکامی کا شکار بھی ہوئے، ناکامی سے مراد یہ بھی نہیں کہ وہ قومیں بالکل صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے، ایسا ممکن نہیں کیونکہ فطرت نے بھی کچھ دلچسپ قوانین بنائے ہیں، مردہ چیز کو جب توڑا جائے تو وہ پھر سے خود کو بنا نہیں سکتا لیکن زندہ چیزوں کو جتنی بار بھی توڑنے کی کوشش کی جائے وہ پھر سے ابھرتے ہیں، قوموں کی انقلابوں کی کامیابی بھی اسی طرح تھی، کہیں پر سوشلزم کا نعرہ لگا تو کہیں پر مارکسزم کا، کہیں پر محمد(ص) کی پیروی کی گئی تو کہیں پر ارسطو۔ لینن وغیرہ کے شیدائی بھی نظر آئے۔ لیکن اس بزگ قوم کو کس نعرے کی ضرورت ہوا ہے ہم نے سوچا نہیں ہم نے ہمیشہ سے دوسروں کے آئیڈیاز کو لاگو کرنے کی کوشش کی مکمل کامیابی ایک میں بھی نہیں ملی۔ کیا وجہ ہے جو بار بار ناکامی کا شکار ہوئے جارہے ہیں، کیا ہمارے پاس استاد نہیں؟ کیا ہمارے پاس لکھاری نہیں؟ کیا ہمارے پاس مفکرین نہیں؟ کیا ہمارے پاس وہ سب نہیں جو کسی انقلاب کو لانے میں ہمیں سو فیصد کامیابی دلاسکیں؟ ہم دوسرے قوموں کی آئیڈیاز کو لاگو کرنے کے بجائے ان سب کو پڑھ کر اپنی سوچ لانے میں کیوں ناکام ہیں؟ ایسا کیا نہیں ہمارے پاس جو ایک قوم کو ضرورت ہوسکتی ہیں۔

ہم نے ہمیشہ سے انحصار کرنا سیکھا نا کہ خود وہ کوشش وہ جتن کی جو ایک قوم کو کرنی چاہیئے۔ کہیں تو ہم سے کوئی چوک ہورہی ہے جو ان سب ناکامیوں کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مغرب کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ انہوں نے لوہے کو مشین میں تبدیل کیا اور ہم آج تک لوہے کو سنہری رنگ دی کر جواہرات کی شکل میں مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ کہیں ہم دھوکے باز تو نہیں؟ کہیں ہم دھوکے بازی کا نعرہ تو نہیں لگا رہے؟ کہیں ہم دوسروں کو بے وقوف بناتے بناتے اتنے آگےتو نہیں نکل چکے کہ اب خود سے بھی دھوکہ دہی کرنے لگے ہیں؟ اگر فطرت کا قانون یہ ہے کہ ہر زندہ چیز جتنی بار ٹوٹے وہ کہیں نا کہیں سے پھر سے ابھر جاتا ہے تو کہیں ہم مردوں میں تو شمار نہیں؟ ہم حقیقت پسندی کے بجائے۔ ( materialistic) تو نہیں بن گئے؟ اسکی گاڑی 8 وال ہے تو میری 16 کیوں نہیں؟ وہ 3 منزلہ عمارت میں ہے تو میری 5 منزلہ کیوں نہیں؟ اس نے راڈو گھڑی پہنی ہے تو میری رولکس کیوں نہیں؟ وہ سفید بوسکی پہن سکتا ہے تو میں سفید کاٹن میں کیوں نہیں؟

نعرہ اسوقت سوشلزم کا ہو یا مارکسزم، ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہمیں مطلب ہے تو حقیقت پسندی سے ہمیں مطلب ہے تو محبت سے، ہمیں مطلب ہے تو امن سے، ہمیں مطلب ہے تو اس بوڑھی ماں سے جو ٹھٹرتی سردی میں جوان بیٹے کو گلی کوچوں اور شہر میں ڈھونڈتی پھرتی ہے، ہمیں مطلب اس بہن سے ہے جس نے اپنے بھائی کے لیئے شادی کا جوڑا خریدا تھا، ہمیں مطلب اس باپ سے ہے جسکے بازو کٹے ہیں، ہمیں مطلب اس عورت سے ہے جسکے شوہر کو شادی کی پہلی رات سے ہی کہیں گم کیا گیا ہے۔ ہمیں مطلب اس بچے کے اداس چہرے سے ہے جو انتظار میں ہے کہ میرا باپ کسی دن آئے گا، ہمیں مطلب اس گھر کے واحد کفیل سے ہے جسکے بغیر گھرکا چولہا نہیں جلتا، ہمیں مطلب اس بیٹی سے ہے جو کہتی ہے کہ مجھے ایک بار اپنے باپ کی آواز سنا دو، اگرقیامت کے دن وہ مجھے آواز دے تو اسکی آواز کی جنبش کو اس آواز کی گہرائی کو سمجھ کر مڑ سکوں۔ اور یہ سچ ھے کہ وہ ان دیکھی زنجیریں ھیں جن کو ہم توڑ ہی نہیں سکتے، جن سے ہم نکل ہی نہیں سکتے، اگر ہمارا معاشرہ آزاد ھوتا اور ہم ایک محفوظ معاشرے میں سانس لے رہے ہوتے تو ہمیں کبھی کسی انقلاب کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر تمہارا نعرہ حقیقت پسندی پر نہیں محبت پر نہیں تو تمہارا قبلہ اور نعرہ کونسا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔