نظریہ معزور ہوتی ہے نہ بانجھ
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تحریک وقت کے ساتھ ساتھ جہاں سمجھ بوجھ اور پختگی کی راہوں پر رواں دواں ہے، وہیں پر بچگانہ ذہنیتوں، اور نا پختگی کے اعلیٰ نمونے بھی اس کاروان کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ مذہبی ملاوں کی طرح بعض اوقات مختلف فتوے سننے کو ملتی ہیں۔ بلوچ تحریک اپنی مثال آپ رہی ہے، مکمل قوم پرستی اور نظریہ آزادی اس تحریک کے استاد رہے ہیں۔ قومی شعور کی کمی کی وجہ سے یہاں خون میں لپٹی لاشوں کو بھی قبرستان میں عام انسان سمجھ کر دفنایا گیا ہے۔ جہد کو تب تقویت ملتی ہے، جب لوگ اسکے ساتھ جڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کل تحریک کے مالک ہونے کے دعویدار اس یکجہتی کے عمل میں توڑ ڈالتے ہیں۔ توڑ طبقاتی اور علاقائی یا قبائلی ہمیشہ سے رہی ہے لیکن افسوس اب اس توڑ کو عمل کی بنیاد پر بھی واضح کی جارہی ہے۔
قوم پرستانہ عمل قوم کی متفقہ میراث ہوتی ہے، یہ قومی عمل ادا تو فرد و افراد، گروہ اور گروہوں، پارٹی اور پارٹیوں سے ہوتی ہے، مگر اسکے اثرات براہ راست قوم اور قومی تحریک پر پڑتے ہیں۔ قوم اور قومی تحریک کے رہنمائی کی دعویدار قوتیں قومی عمل کا حصہ بننے کیلئے قوم کے ہر فرد کی نظریاتی تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ قومی سطح پر کسی بھی مثبت عمل کا حصہ بنکر قومی تحریک کی خدمت کرسکیں۔ مثبت عمل کے ہزاروں مواقعوں کو نظریاتی ساتھیوں کیلئے بیان کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی قابیلیتوں اور صلاحیتوں کے مطابق عمل کا چناو کرسکیں۔ جن میں تحریر و تقریر، سیاسی و سماجی، مزاحمتی و ادبی کرداروں کا مجموعہ شامل ہوتی ہے۔ جدید سائنسی سیاست مختلف فریکشنز کا مجموعہ ہوتی ہے۔ آج اس دور جدید کی سیاست ان فریکشنز میں سے کسی ایک کی کمی کی وجہ سے ادھورا اور کمزور رہتی ہے۔ قومی آواز کو دنیا کے دیگر اقوام تک پہنچانے کیلئے سیاسی، انسانی حقوق، سمیت قومی دفاع کو یقینی بنانے کیلئے مزاحمتی تنظیمیں ایک قومی مقصد کو مختلف انداز میں ہم آواز ہوکر بیان کرتی ہیں تاکہ قومی سوال کے حل کیلئے دیگر آزاد و مہذب دنیا کی مدد و کمک حاصل کی جاسکے۔
بلوچ تحریک آزادی نشیب و فراز اور قبضہ گیر ریاست کی جانب سے قتل عام ، مسخ شدہ لاشوں، ہزاروں سیاسی اسیروں کی لمبی فہرست کے باوجود اپنی مدد آپکے تحت مختلف محاذ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہی ہے۔ ان کامیابی کے پیچھے قربانیوں کا ایک تسلسل ہے۔ یہ تسلسل کسی ایک دن یا دہائی پر مشتمل نہیں بلکہ صدیوں سے جاری بلوچ قوم کے عظیم فرزندوں کی جانثاریوں، ماووں بہنوں کی آنسوں اور شہداء اے وطن کی خون شامل ہے۔ آج سے ایک صدی قبل انگریز کی عقوبت خانوں میں مرنے والے گمنام شہیدوں ، پہاڑوں میں دشمن کے گولیوں سے چھلنی ہونے والے چرواہوں سے لیکر جلاوطنی کی تکلیفوں، بازاروں اور دیہاتوں میں متحرک سیاسی و سماجی کارکنوں کی قربانیوں کی بدولت آج بلوچ قومی تحریک کی ایک مظبوط بنیاد فراہم کر رہی ہیں۔ اگر کوئی تحریک اور اس سے جڑی کامیابیوں اور ناکامیوں پر لب کشائی کرئے تو اسکو اس تسلسل کو سمجھنے کیلئے اپنے علم میں اضافہ کیلئے ماضی اور حال کو یکجاء کرکے رائے زنی کرنی چاہیئے۔
نظریہ کھبی نہ بانجھ پن کا شکار ہوتی ہے نہ کھبی معزور ہوتی ہے۔ وقت اور حالات اسکو رضا کار فراہم کرتی ہیں۔ نظریہ کو مکمل کرنے کیلیے رضا کار فکر کی پیروی کرکے عمل کو انجام دیتی ہیں۔ قومی جہد میں ہزاروں رضا کار شامل ہوتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اپنا کردار اپنی اہیلیت و صلاحیت کے مطابق ادا کرتی ہیں۔ تنظیمیں اور رہنماء ان قابلیتوں کے اثرات کو قومی و بین القوامی سطح پر پہنچانے کیلئے موقع تلاشتے ہیں۔ قومی عمل کو ترازو میں نہیں تولا جاسکتا۔ رضاکاروں کے درمیان عمل کی بنیاد پر فرق کرنا قطعاً قوم پرستانہ عمل نہیں۔ رضا کار وہ خوش قسمت اور عظیم انسان ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض و لالچ اپنا وقت اور زندگی قومی جہد کے نام کرتے ہیں۔ تکلیفیں ، مشکلات و مصائب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں۔ زندگی خود ایک جہد کا نام ہے اور اسکے ساتھ باشعور و نظریاتی رضا کاروں کے کندھوں پر اضافی قومی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ عمل کا موازنہ کرنا یا ایک دوسرے کے عمل میں خامیاں نکالنا ہرگز نیک شگون و مثبت عمل نہیں۔
بلوچ وطن سے جلاوطنی اختیار کرنے والے مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ ان میں سینکڑوں کارکن آج منظم ہو کر جہد کو عالمی سطح پر اجاگر کررہے ہیں۔ انکی کاوشوں کو بے غرض و بے مقصد گرداننا ناسمجھی اور جذباتی پن کی نشانی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی مخلصی و محنت کی وجہ سے کمی بیشیوں کے باوجود آج دنیا کے مختلف پیلیٹ فارمز پر بلوچ قوم کی نمائندگی ہورہی ہے۔ وہ آواز جو کل تک غاروں اور بند کمروں تک محدود تھی، آج اسکی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بطور قوم اور قومی تحریک انکی کامیابی قوم و دنیا بھر میں ہر جہد کار کی کامیابی ہے۔ مثبت تبدیلی کی ہر عمل میں گنجائش رہتی ہے، اسکے لیئے ہمیں قومی تحریک میں اتحاد و مشترکہ عمل کیلئے فردی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی کاز کی جانب توجہ دینے کی ضروت ہے۔ تب ہی ایک مکمل سیاسی و منظم قومی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔