نظریاتی مفرور – برزکوہی

627

نظریاتی مفرور

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جنوب افریقی تاریخ ساز رہنما نیلسن منڈیلا تحریک کے مختلف مدوجزروں کو دیکھ کر ایک جگہ کہتے ہیں کہ “ایک آزادی کے مجاہد کو یہ کافی مشکل سے سمجھ آتی ہےکہ جنگ کس نوعیت کی ہوگی۔ اس بات کا فیصلہ ظالم کرتا ہے، اور مظلوم کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ بالکل وہی طریقے اپنائے جو ظالم کا مقابلہ کرسکیں۔ انصاف کی جنگ میں ایک مقام پر پہنچ کر آگ کا مقابلہ آگ ہی سے کیا جاسکتا ہے۔”

جدوجہد قومی آزادی یا قومی انقلاب ایک ہمہ جہت اور تسلسل کے حامل جہدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے، جو مختلف اجزائے ترکیبی سے روبہ عمل پاتا ہے، اسکے تمام اجزاء بہت ضروری ہیں، لیکن یہاں ایک امر نہایت غور طلب ہے کہ اپنے مقابل دشمن کے طریقہ واردات کو نظر انداز کرکے یعنی مقابل قوت کے جارحیت، سفاکیت، شاطرانہ و سازشی اقدامات سے منہ پھیر کر یا لاعلم و بے خبر ہوکر، جہدوجہد کے محض ایک ایسے جز کے ساتھ منسلک رہنا اور اسے دردِ دل کا دوا گرداننا، جو دشمن کے طریقہ واردات کا کماحقہ مقابلہ نہیں اور اسی جز میں سرگرم رہنا، محض ایک ہاری ہوئی ذہنیت کی عین علامت ہے۔

مشاہدات و تجربات، تحلیل نفسی اور تحریکی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جب قومی آزادی کی جدوجہد، ابتدائی مرحلے کو کامیابی سے پارکرکے، دوسرے طویل مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو نظریاتی و فکری، علمی و عملی طور پر کمزور جہدکار تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ ابتدائی مرحلہ مختصر ہوتا ہے اور عموماً اس پر جذبات کا گہرا چھاپ ہوتا ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ طویل و کٹھن ہوتا ہے اور نظریاتی پختگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ تحریک کے طوالت اختیار کرتے ہی، نظریاتی طور پر نا پختہ جہدکار مختلف حیلے بہانوں سے یا تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں، یا پھر آسان سرگرمی اور آسان ذمہ داری کی تلاش شروع کردیتے ہیں، جو عمومی زندگی کے کسوٹی کے ایک چھوٹے سے خانے میں پورا بیٹھے، اور پھر اس چھوٹی اور آسان ذمہ داری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے دشمن کا کماحقہ مقابلہ ہے اور کیسے اہم ہے، کیونکہ اسطرح صرف وہ معمولی کام اہم نہیں بن جاتا، وہ فرد بھی کچھ خاص کیئے بغیر اہم بن جاتا ہے، قطع نظر اسکے تحریک کو اسکی کتنی ضرورت ہے۔ یہ ذہنی شکست خوردگی کی ایک واضح نفسیاتی علامت ہے۔

فکری طور پر پختہ جہدکار، بہادر ہوتے ہیں، بہادری محض توپ کے منہ میں خود کو ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ اس لحاظ سے بھی بہادر ہوتے ہیں کہ انکی فکری پختگی انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ بہادری کے ساتھ حالات کا درست ادراک رکھیں، درست تجزیہ کریں اور اس حقیقت کو نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ سمجھیں کہ زمینی حالات کیا ہیں، اور یہ حالات بطور جہدکار مجھ سے کس طرح کے جہد کا تقاضہ کررہے ہیں، اور بہادری و ایمانداری کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ان تحریکی تقاضات پر کاربند ہوجائے۔ خود کو حیلے بہانوں سے روکنا، درست تقاضوں کو سمجھ کر اپنی ذات کو ہر حال میں ان پر کاربند کرنا، مقدس اور بہادر ترین جہدکاروں کا شیوہ ہے۔

آج بحثیت بلوچ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ دشمن ہمارے خلاف کس حد تک بڑھ چکا ہے؟ نا زمین کے نیچے وسائل محفوظ ہیں اور نا ہی اوپر بسے اسکے باتی، نا مرد آزاد ہے نا زن، نا پیر محفوظ ہیں نا ہی ورنا، اور یہ ظلم، جبر، قبضہ زبانی جمع خرچ سے ہورہا ہے نا ہی سیاسی و سفارتی اٹکل بازی سے، یہ خالص آتش و آہن اور فوجی طاقت کی وجہ سے ہے۔ اب ایسے صورتحال میں نا آپ کو کوئی سائنسدان ہونے کی ضرورت ہے اور نا سماجی و سیاسی سائنس کا ماہر کے سمجھ سکیں کہ دشمن کے اس طریقہ واردات کا مقابلہ کیا ہوسکتا ہے؟ بس جس طرح دو جمع دو چار ہوتے ہیں، اسی طرح سادہ سا اپنے وطن کے حالات کا درست حساب لگالیں تو پھر آپ کو حل کیا نظر آتا ہے؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ اس تناظر میں مسلح محاذ پر مکمل توجہ مرکوز کرکے قومی جنگ کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے؟

اگر میدان میں دشمن کے خلاف موثر جنگ نہیں ہوگی تو باقی چیزیں موجود ضرور ہونگی، لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن مزاحمت کو مضبوط و متحرک کرنے کے قیمت پر باقی اجزاء کمزور یا ختم ہو بھی جاتی ہیں تو، پھر جب مزاحمت شدت پکڑے گی تو وہ از خود باقی اجزاء اپنے کوکھ سے خود تخلیق کریگی۔

سنہ 2000 سے پہلے کہاں پر تھا ہماری سفارتکاری؟ نظریاتی و فکری سرفیس سیاست؟ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف جدوجہد و علمبرداری و مزاحتمی ادب، تحریر و تقریر؟ حتیٰ کہ عالمی قوتوں کی توجہ بلوچستان پر کچھ نہیں تھا۔ کیا ان سب کی تخلیق مسلح جدوجہد کی کوکھ سے نہیں ہوا؟ اب اگر مسلح جدوجہد خدانخواستہ کمزور ہوتی ہے یا ختم ہوتی ہے تو پھر ان متذکرہ چیزوں کی کوئی اہمیت و افادیت کیا ہوگی؟ اگر یہ موجود ہوں بھی تو پھر نتیجہ کیا ہوگا؟

یہاں ایک بات دوبارہ واضح کرکے دوبارہ دہرائے جانے کے متقاضی ہے کہ پاکستان جیسے سفاک، غیر جمہوری اور انسانی اقدار سے عاری دشمن سے آزادی حاصل کرنا، بالکل بھی آسان نہیں ہے اور اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ایک انتہائی محدود پیمانے کے سیاست، سفارت، صحافت سے پاکستان جیسے سفاک سے آزادی حاصل کرلے گا، وہ محض خود کو دھوکہ دے رہا ہے، اس سے آپ کو چار نالیوں کے ٹھیکے تک نہیں ملیں گے، آزادی دور کی بات ہے۔ آزادی کا راستہ گو کہ کٹھن ہوگا شاید طویل بھی لیکن وہ راستہ صرف اور صرف مسلح مزاحمت ہے۔

یہاں ایک ضروری سوال اٹھتا ہے کہ اگر راستہ صرف اور صرف مسلح مزاحمت ہے تو پھر باقی اجزائے ترکیبی جیسے سیاست، سفارت، صحافت، انسانی حقوق وغیرہ کا کیا کردار؟ ان تمام اجزاء کا کردار مسلح جدوجہد کو ہی مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ سیاست بندوق سے نکلی گولی کے مقصد کی سیاسی تشریح کرکے اپنے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ سفارت، یہی کام بیرونی دنیا میں کرتا ہے اور انکو بتاتا ہے کہ ہم ان کیلئے خطرہ نہیں، صحافت آپکی آواز پہنچاتا ہے، اسی طرح ہر جز مسلح مزاحمت کو استحکام کے گرد اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی اگر مسلح مزاحمت نا ہو پھر ان اجزاء کے ہونے کا جواز ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر جب دشمن پاکستان جیسا ملک ہو۔

لیکن ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ وہ ذہنی شکست خوردہ جہدکار، جو کسی طرح مسلح جہد سے نکل کر آسانی کی تلاش میں باقی اجزاء سے جڑ گئے ہیں، وہ اپنے اپنے متذکرہ اجزاء کی اتنی تسبیح کرتے ہیں کہ جیسے پوری تحریک ان پر کھڑا ہے۔ کوئی سفارت سے جڑ گیا ہے اور بیرن ملک منتقل ہوگیا ہے تو وہ اس تھیوری کے ساتھ آتا ہے کہ مسلح مزاحمت اب زائدالمیعاد ہوچکا ہے، جب تک سفارت کاری سے ہم بیرونی طاقتوں کو مدد کیلئے آمادہ نہیں کرینگے تو آزاد نہیں ہونگے۔ اگر کوئی صحافت سے جڑگیا ہے تو وہ اس تھیوری کیساتھ آرہا ہے کہ اب دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے، ہر تبدیلی وہاں سے آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یہ قبیل نا صرف خود راہ فرار اور آسان طلبی کا شکار ہورہے ہیں بلکہ اس آسان طلبی میں بھی اپنی اہمیت اور ایک اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے متذکرہ اجزاء کی اہمیت کا حامل ہونے کا حد درجہ پرچار بھی کرتے ہیں، جس سے ناصرف وہ نئی نسل کو حقیقی جہد کی جانب مائل ہونے کے بجائے ایسے بے فائدہ کاموں میں لگاتے ہیں بلکہ مسلح جہد کے صفوں میں موجود کچھ تھکے ہوئے جہدکاروں کے ذہنوں میں بھی سوال پیدا کرتے ہیں کہ اگر وہ کام بھی اتنا اہم ہے تو میں کیوں اتنا مشکل کام کررہا ہوں اور نئی نسل سوچتا ہے کہ اگر میں آزادی کی جہد چار ٹویٹ کرکے کرسکتا ہوں تو پھر بندوق اٹھانے کی کیا ضرورت، پھر ان جذبات کا رخ دوسری جانب بہہ جاتا ہے، جو بے نتیجگی کے بے باعث آخرکار اس میں اول اکتاہٹ پیدا کرتے ہیں اور بالآخر وہ کنارہ کش ہوجاتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سفارتکاری کے جس کام کیلئے اگر چار بندوں کی ضرورت تھی تو اب چار ہزار ہوگئے ہیں، جس سے درجنوں مختلف موقف پہنچنے کی وجہ سے فائدہ نہیں صرف نقصان ہی ہورہا ہے۔ میڈیا و لکھاری اگر چار ضرورت تھے تو وہ اب اتنے ہوگئے ہیں کہ اب پڑھنے والے کم ہیں، لکھنے والے زیادہ۔ اور یہ سب ایک گروہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں جہاں میں تمہیں ملا بلاؤں اور تمہیں مجھے حاجی کے مصداق صرف اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ انکا کام کتنا اہم ہے، جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن زمینی حالات کی انکو کوئی خبر نہیں۔

آخری دلیل محض یہ آتی ہے، ” جی! جو مجھ سے ہوتا ہے، میں کررہا ہوں” عجیب دلیل ہے، جو جینیوا میں چھ مہینے میں ایک بار فائیو اسٹار ہوٹل میں سیمینار کرنے والے اور بولان میں روز دشمن کے بندوقوں کا مقابلہ کرنے والے کو برابر کردیتا ہے، کیوںکہ دلیل کے رو سے جس سے جو ہوتا ہے وہ کررہا ہے، بندوق بردار سے لڑائی ہورہی ہے وہ لڑرہا ہے، اس سے جنیوا میں مظاہرہ ہورہا ہے وہ کررہا ہے۔ “بس” کے اندر کرنے کا پیمانہ دونوں کو برابر کردیتا ہے۔ نہیں جناب! ایسا نہیں، یہ پیمانہ درست نہیں ہے، حقیقی پیمانہ یہ ہے کہ حالات جو تقاضہ کررہے ہوں۔ پیمانہ یہ ہے کہ وطن کی دھرتی اس وقت جو تقاضہ کررہی ہے وہ کرو۔ اور جو ان تقاضوں پر چلا وہ عظیم ہے، وہ نہیں جو اپنے “بس” پر چلا۔

اختتام ان الفاظ پر کروں گا کہ باقی اجزاء تحریک کیلئے کتنا ضروری ہیں، جہاں ضروری ہیں، اور کب ضروری ہیں اور کب، کس وقت، کتنے لوگوں کو ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ وقت کے ساتھ تنظیمی لیڈرشپ یہ فیصلے کریں، اور ذمہ داریاں اہلیت و ضرورت کے مطابق بدلتے رہیں۔ باقی اجزاء محض آرام طلب و نظریاتی مفرور طبقے کیلئے محفوظ جنت نہیں بننی چاہیئں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔