بلوچی اور اردو زبان کے دانشور شاعر میر گل خان نصیر نے اپنے قلم کے ذریعے بلوچستان کی عوام کی ہر فورم پر نمائندگی کی۔ ان خیا لا ت کا اظہار نامور اردو اور براہو ئی زبان کے ادیب وحید زہیر نے اکادمی ادبیات کوئٹہ کے زیراہتمام میرگل نصیر خان فن و شخصیت کے حوالے سے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہو ں نے کہا کہ موجودہ فکری ہوشمندی کی داغ بیل ڈالنے والوں میں میر صاحب کا اہم کردار ہے۔ فیض احمد فیض ودیگر کی طرح عوامی بیداری کا بیڑا اٹھایا۔ جس کے لیے صوبتیں بھی برداشت کیں جب قلم و کتاب کی معاشرے میں مکمل بالادستی تھی۔ اجتماعیت کو فروغ حاصل تھا۔ ملک میں یکجہتی اور مظالم کے خلاف قوم صف آراء تھی۔ معاشرے میں اس قدر بگاڑ کا تصور ممکن نہ تھا۔ جس سے بگاڑ کا سامنا آج ہم سب کو ہے۔
مذاکرے سے بلوچی زبان کے معروف شاعر مولانا عبدالرشید ہمدم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا کہ میر گل خان نصیر کی ادبی خدمات اور بلوچ تاریخ کو زندہ رکھنے کے لئے قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اگر معاشرے میں انصاف کو فروغ دینا ہے تو ملک کے حقیقی دانشوروں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ مثبت انداز فکر کی آبیاری کرنی ہوگی جو سچ پر مبنی ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر اکا دمی ادبیات افضل مراد نے مہما نوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ حقیقی قلمکاروں کے بغیر معاشرے بانجھ ہوجاتے ہیں۔ ترقی کے عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ معاشرہ جہالت اور خود غرض افراد کی گرفت میں ہونے کی وجہ سے معاشرتی برائیوں کا شکار ہوتا ہے۔ سطحی انداز کے معاملات پر عوام دست و گریبان ہوکر زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتا۔
مذاکرے میں ادباء و شعراء کی بڑی تعداد نے شرکت کی ادب اور ادیب کے کردار پر گفتگو کی۔