میرے شہر میں طلوع ہوتا سورج – میرین زہری

398

میرے شہر میں طلوع ہوتا سورج

تحریر: میرین زہری

دی بلوچستان پوسٹ 

شہر کراچی سے بلوچستان کی طرف داخل ہوتے ہی پہلا شہر حب چوکی ہی آپکو خوش آمدید کہتا ہے۔ حب چوکی جو اس قدر کھلے دل کا مالک ہے کہ اس نے اپنی ممتا بھری باہیں نا صرف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والوں کے لئے کھول دی ہے بلکہ یہاں سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ سمیت افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ یہ نا مذہبی لحاظ سے تنگ نظر ہے نا ہی لسانی لحاظ سے، یہاں ہندو، مسلمان، عیسائی تمام اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بلا خوف عبادت کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں اور زندگی کے باقی تمام عوامل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

2008 سے لےکر 2010 تک حب شہر علمی حوالے سے ایک مرکز سمجھا جاتا تھا، یہاں ہر دوسرے ہفتے کسی نا کسی اسکول، انٹر کالج یا کسی گراونڈ میں علمی سرکلز منعقد کئے جاتے تھے، سیاسی بحث مباحثے اپنے عروج پر تھے، مقامی ہوٹل بھی علمی مکالمے کا گڑھ بن چکا تھا۔

یہ وہ شہر تھا، جہاں کے سیمینار جلسے جلوس اور ریلیوں میں لوگ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکتے تھے، بلوچستان میں سیاست کرنے والی تمام تنظیموں اور پارٹیوں کی نظریں اسی شہر پر جم گئی تھیں اور انکے کارکنان کی ایکٹویٹیز تیز سے تیز تر ہو رہی تھیں۔

2010 ہی وہ سال تھا جب بلوچستان کے حالات سے اثرانداز حب میں بھی سیاسی کلچر کا خاتمہ شروع ہوا، سیاسی کارکنان کے اظہار خیال پر پابندی لگ گئی اور حب سے بہت سارے سیاسی کارکنان کے ماورائے قانون گمشدگی کے معاملے پیش آئے، جاوید نصیر رند، صمد بلوچ، فراز نسیم، امیت بلوچ سمیت مری قبیلے کے بہت سے نوجوان ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ ان حالات میں علمی سرکلز، بحث مباحثے، اور علمی سیمینارز منعقد ہونا بند ہو گئے۔

پھر تو جیسے حب شہر میں گھٹن سا ماحول پیدا ہوا، سیاہ رنگ کے شیشوں والی خوفناک گاڈیاں یہاں بھی پھرنے لگیں، بندوق، موٹر سائیکل، لمبے بال، پان گٹکا، سیگریٹ، و دیگر منشیات کا استعمال ہی یہاں کے نوجوانوں کا مشغلہ بنا رہا۔ اسکولوں میں تخلیقی سوچ رکھنے والے طلبا کا نکلنا بند ہوا، واحد ڈگری کالج میں بس کرکٹ ہی رہ گئی جس کے لئے طلبا لمبا راستہ طے کر کے جاتے ہیں۔

بہرحال اس دوران جام و بھوتانی، سردار و میر والی سیاست کافی پروان چڑھ گیا، چمچہ گری، اندھی تقلید، منافقت، جھوٹ، بدمعاشی بس یہی نام کی سیاست سالوں تک چلی۔

اب کچھ وقت سے کافی حد تک 1ایک تبدیلی نظر آ رہی ہے، حب میں تعلیمی ماحول ایک بار پھر زندگی کی تمنا رکھے اگ رہی ہے، جس کی شروعات حب میں لائبریری کمپین سے ہوتا ہوا کیرئیر کانسلینگ تک جا پہنچا اور اب حب میں مختلف سرکلز، ڈسکشنز، کتابوں پر تبصروں کے ساتھ ساتھ مکالمے و بحث مباحثے کا کلچر جنم لے رہا ہے، جو مستقبل میں حب کو منشیات، چوری ڈکیتی و دیگرسماجی فضولیات سے دور کرکے علم و شعور کی طرف راغب کرنے میں مدد کرے گا، جو اس قوم کی بقا کا واحد زریعہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔