معروف بلوچ دانشور منظور بلوچ کا ہزارہ برادری سے خطاب

431

حسن رضا چنگیزی کی کتاب”قصہ ہائے نا تما م“کی تقریب رونمائی میں منظور بلو چ کا ہزارہ برادری سے خطاب

فقیر شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مسلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے

یہاں جن لوگوں کی سوچ مختلف رہی ہے،ان کو اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ درد  سہنے میں گزارنا پڑا ہے،آپ فیض صاحب کی مثال لیں،آپ ان تمام اکابرین کی مثال لیجئے جہنوں نے اختلاف کیا یا اختلاف رائے کا حق استعمال کیااس کو ہمارے سوسائٹی میں قبول نہیں کیا گیا ان پر مختلف جھوٹے کیسز بنائے گئے ہیں،ان پر مقدمات بنائے گئے،لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو سب کا درد اپنی جگر میں رکھتے ہیں کیونکہ ہم اگر یہاں پر موجود ہیں میرے خیال میں بہت سی مشترکہ چیزوں میں ایک چیز درد بھی ہے،جس کرب سے آپ لوگ گزرے ہیں میرے خیال ہم سب اس کرب سے گزر رہے ہیں۔

ہم سب نے جنازے اٹھائے ہیں،ہم سب کا خون ایک جگہ بہا ہے،لیکن ہم میں یہ سوچ کب آئے گی کہ ہمارا خون اتنا سستا کیوں ہے پانی سے بھی زیادہ سستا ہے،ہم نا ان لوگوں کا نام میرے خیال میں نہیں لے سکتے جہنوں نے ہمیں قتل کیا۔

حسن رضا نے جو حالات کوئٹہ کے انہوں نے رقم کیے ہیں ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا،اس کتاب میں بہت ساری چیزیں ہیں جن کو ہم پڑھ کر محسوس کر سکتے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب میں ہمیں ان چیزوں کو بھی ہمیں پڑھنا ہوگا جو اس میں تحریر نہیں ہے،بہت کچھ ہے جس کو لکھنا ابھی باقی ہے۔

جب درد آپ کے سماج کا حصہ بنتا ہے،جب درد آپ کے اندر سے نکلتا ہے تب قومیں بنتی ہیں،تب شعور آتا ہے،جب تک درد نہیں ہوتاجب تک خون نہیں بہتانہ جانے کیوں اس وقت تک انسان بہت سارے چیزوں کو نہیں سمجھتا۔

ہمارے سامنے قوموں کی بہت ساری مثالیں ہیں یہودیوں سے لے کر بنگالیوں تک بنگالیوں کو سیاسی طور پر عتاب کا سامنا کرنا پڑا،اس لیے کہ وہ شعوری طور پر ہم سے بہت آگے تھے،انہوں نے بہت سارا دکھ دیکھا،ان کے لاکھوں لوگ قحط میں مارے گئے،انگریز جیسا نوآباد کار بھی انہیں اپنے قابو میں نہیں رکھ سکا اور بنگال کی تقسیم کی۔

اس کے بعد انہوں نے پاکستان بنایا وہ پاکستان کے ساتھ بھی چل نہیں سکے پھر ان کو بھی الگ کرنا پڑا تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کے دکھ میں کہیں نہ کہیں تماشائی کا کردار ضرور ادا اکررہا ہے  جس کی وجہ سے آج ہم میں کوئی ایسا باقی نہیں بچا ہے کہ جس کے دل میں درد نہ ہو یا جس نے خون بہتے ہوئے نہیں دیکھا ہو۔

ہر گھر ماتم کدہ بن چکا ہے،ہر گھر میں شہداء کی تصویریں ہیں،ہر گھر میں کچھ زخمی،اپاہج یا بہت سارے لاپتہ ہیں،لیکن ہمارا جو اجتماعی انٹلیکٹ جس کو ہم شعور کہتے ہیں وہ کیوں جاگ نہیں جاتا؟
آج اتنے دکھ سہنے کے باوجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو اس خون کی تجارت کر رہے ہیں،ہمارے ہاں بھی ہے آپ کے ہاں بھی ہوں گے،کیونکہ خون کی تجارت منافع بخش کاروبار بھی ہے  ہم جہاں کمزور پڑتے ہیں،جہاں تقسیم ہوتے ہیں وہاں ہمارا اپنا ضرور ہوتا ہے کیونکہ جب تک آپ میں سے یا ہمارے اپنے گھر میں کوئی غیر کے ساتھ نہیں ملا ہو غیر کچھ نہیں کر سکتا،اسی کوئٹہ میں جب ہم پڑھتے تھے تو ہم نہیں جانتے تھے کہ بریلوی، دیوبندی، ہزارہ، بلوچ، پشتون کون ہے،پھر اچانک واقعات شروع ہوئے یہ واقعات تخلیق کیے گئے، ہمارے درمیان کوئی نفرت نہیں تھی ہم نہیں جانتے تھے کہ فرق کیا ہے کیوں کسی سے نسل کی بنیاد پہ رنگ کی بنیاد پہ نفرت کی جائے،پھر جو ہماری صورتحال رہی یا شاید ہم بد قسمت قوم ہیں کہ جس سر زمین پر ہم رہتے ہیں شاید وہ بہت قیمتی ہے،جس کی وجہ سے ہمارا خون بہہ رہا ہے یا ہمیں شطرنج کے مورے بنا دیئے گئے ہیں،لیکن میں سمجھتا ہوں جب اتنا خون بہہ جاتا ہے تو قوموں کا شعور بھی بڑھ جاتا ہے،خون بہنے سے تحریکیں مضبوط ہوتے ہیں کمزور نہیں ہوتے،جس کسی نے بھی یہ سوچ رکھا ہے کہ اگر تقسیم کرنے،خون بہانے سے قومیں ختم ہوتی ہیں تو میرے خیال میں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں  ہمارے بہت سے کم اکابرین ہیں جہنوں نے وقت سے بہت پہلے چیزوں کو سمجھا،لیکن ہم میں سے بہت سارے لوگ نہیں سمجھ پائے اور ہم اپنے اپنے خانوں میں بٹے رہے جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں ہم نے جس شہر میں وقت گزارا آج وہی آپ کو آتے ہوئے جاتے ہوئے آپ کو تکلیف ہوتی ہے،آپ دیکھ نہیں سکتے ہیں،آپ رو نہیں سکتے ہیں،ہم ایک دوسرے سے ملنا چاہے مل نہیں سکتے ہیں۔

بظاہر تو ہمارے درمیان میں کوئی دیواریں نہیں ہیں لیکن دیواریں بہت سارے کھڑی کی گئی ہے میں نہیں سمجھتا کہ کوئی فرقہ واریت کا مسئلہ ہے بنیادی طور پر وہی نوآبادیاتی عزائم ہیں،وہی لوٹ مار کی داستان ہےکہ آج کی جو وسائل ہیں وہ انہیں ضرورت ہے۔
یہ جو ہمارا خون ہے میں سمجھتا کہ رائیگان گیا  اس لیے یہ خون بہا کہ ہم نے کتابوں کے ذریعے اس سوسائٹی کو بدلنے کی کوشش نہیں کی ہے،ہم نے اپنے باطن کو روشن کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ،تو پھر قدرت ایسی قوموں کو ایسے آزمائش میں ڈال دیتی ہے کہ اگر آپ علم کے ذریعے نہیں سیکھ سکتے پھر آپ کا خون بہے گا،جب خون بہے گا تو میں سمجھتا ہوں دنیا میں سب سے بڑی تعلیم خون ہے،اس سے بڑا علم اور کچھ نہیں آپ دنیا کے جتنی بڑی ادب اٹھائیں وہ درد کے بغیر نہیں لکھا گیا ہے ، درد کے بغیر آپ ادب لکھ ہی نہیں سکتے،منٹو نے جو کچھ لکھا کیا وہ درد کے بغیر تھا میں پڑھتا تھا تقسیم ہند کے فسادات تو کہیں لاشعورمیں ہوتا تھا کہ خدا نخواستہ کہ ہمارے شہر میں ایسے حالات ہونگے تو کیا ہوگا،وہ وقت آیا شاید اس سے برے دن بھی آئے لیکن ایک بات جو اہمیت کا عامل ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جو اجتماعی ذہن ہے اس نے ہمیں بچایا اس نے ہمیں بتایا کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہے دشمن کوئی اور ہے ،جو وسائل پر ہاتھ صاف کر رہا ہے جو یہاں کی تمام دولت لوٹ کر لے جانا چاہتا ہے،لیکن آج اس خون کی بدولت ہم میں قومی شعور ہے آگہی ہے،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آ پ کے ساتھ لٹریچر نہیں ہوگا آپ کا یہ جو ساراحافظہ ہے ساری جو آپ کی داستانیں ہیں وہ ختم ہو جائیں گے آگے آنے والی نسلوں کو پتہ نہیں ہو گا،اس لیے ہمیں حسن رضا جیسے تمام لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ہمارے حافظے میں ہمارے ماضی کو واپس لوٹا رہے ہیں ،اس زمانے میں جب ہمارے پاس لکھاری نہیں تھے،تو جو ہمار ے فوک شاعر تھے وہ ہمارے ہیروز کوہمارے سامنے لایا جب انہوں نے کہا کہ”نورا نورا ہمزہ نا مارے ، خلوکنے دشمن تا چار ے۔“تو اسی فوک شاعر کی بدولت آج بھی نورا کو ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں ،ہمیں اگر اپنے نسلوں کو بتانا ہے اگر اپنے نسلوں کو تعلیم دینا ہے تو ہمیں ان کو بتانا ہوگاکہ ہمارے ہیروز کون ہے اور ہمارے ولن کون ہے،بدقسمتی سے یہاں پر پڑھا لکھا آدمی ہیرو نہیں ہوتا جو چور ہے،جس نے ڈھاکہ ڈالا ہے جس نے پیسہ بنایا ہے اس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،اور جو عالم ہے جو تعلیم یافتہ ہے جس کے پاس صلاحیت ہے جس کے پاس آرٹس ہے اس کی وقعت اس لیے نہیں ہے کہ اس سر زمین پہ اس کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی ہے،ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
”تو دراوڑ ہے یا آریا نسل ہے
جو بھی ہے آپ اسی خاک کی فصل ہے
تجھ کو تیری بربادیوں کا واسطہ
دھونڈ کوئی نیا راستہ“

تو جو ہماری قومیں ہیں ان کو اپنی بربادیوں کا واسطہ ہے کہ آپ ابھی تو خدارا آنکھیں کھولیں،ان چیزوں کو سمجھیں یہ لڑاو اور حکومت کرو والی پالیسی بہت پرانی ہوگئی ہے،اگر آپ کا شعور اجتماعی شعور بڑھے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ کھیل زیادہ عرصہ چل سکے گا،ہمیں ان تمام شہداء کے شکر گزار ہونا چاہیے جو اپنی جیون کا بقایا مرادیں پوری نہیں کر سکیں لیکن ہمارے حصے میں کچھ یادوں کے،کچھ حوصلوں کے،کچھ درد کے چراغ چھوڑ گئے ہیں،اس چراغ کو روشن رکھنا ہے،جس کو حسن رضا کی صورت میں اور شاید میں نے پہلے کہا کہ اس کتاب میں وہ چیزیں بھی ہے جو ہم نے پڑھنی ہے  جو لکھی نہیں گئی ہے اس کو بھی بیان کرنا ہے۔

جینا یہاں مرنا یہاں
اس کے سواء جانا کہاں
جب جی چاہے ہم کو آواز دو
ہم تھے یہیں ہم تھے جہاں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔