ماؤں بہنوں کی بے حرمتی اور شکست خوردہ ریاست
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ گلزمین پر قابض ریاست نے اول دن سے بلوچ قومی تشخص کو پامال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ بلوچ گلزمین پر بلوچ قوم کو بطور غلام رکھنے کے لیے تمام لوازمات طے کئے گئے اور یہاں کے کاسہ لیسوں نے نوآبادکار کیساتھ مل کر بلوچ کے غلامی کو دوام دیا۔ قبائلی جنگوں کی صورت میں نسل کشی ہو یا موروثی سیاست کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو ایندھن بنانا ہو لیکن جب بھی بات مراعات و مفادات کی آئی، یہ اشرافیہ ایک صفحے پر بگھی کھینچتے ہوئے نظر آئے۔
بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاست اور اس کے حواریوں نے جتنے غلیظ حربے آزمائے اس کے مد مقابل بلوچ جہدکاروں نے اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے غلط اقدام سے خود کودور رکھا۔
استاد اسلم بلوچ سے جب کہا گیا کہ ریاست ہماری آبادیوں پر حملہ کررہا ہے تو کیا ہم بھی جوابآ ریاست کو اسی شدت سے جواب نہیں دے سکتے تب استاد نے کہا کہ ہمارے کچھ انسانی اقدار ہیں جن کو ہم کسی بھی طرح پامال نہیں کرسکتے کیونکہ ہم آفاقی اصولوں کے لیے لڑ رہے ہیں جس میں کسی بیگناہ کو ہدف بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ استاد اس حوالے سے بار بار بلوچ روایات کا ذکر بھی دہراتے رہے۔
بلوچ جہدکاروں کی تمام تر توانائیاں جابر کے خلاف مرکوز ہیں اور بہت بہادری و دلیری سے وہ دشمن کا ہر محاذ پر مقابلہ کررہے ہیں لیکن دشمن کے حربے غلیظ سے غلیظ تر ہوتے جارہے ہیں۔
بلوچ ماؤں کو اغواء کرنا اور پھر ان کودہشتگرد ظاہر کرنا اس امر کی نشاندہی کررہا ہے کہ بلوچ جہد کے آگے ریاست حواس باختگی کا شکار ہے اور اس طریقے سے وہ جذباتی صورتحال پیدا کرکے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن بلوچ جہدکاروں کو ریاست کی ان غلیظ پالیسیوں کا ادراک رکھتے ہوئے جامع پالیسی اپنانی ہوگی اور ریاست کو ردعمل ایسے موقع پر دینا ہوگا جب وہ اس کے لیے تیار نہ ہو۔
اس سے پہلے بھی ستر کی دھائی میں بلوچ ماؤں بہنوں کو باقائدہ طور پر منڈیوں میں فروخت کیا گیا ہے اور آج پھر مزید غلاظت کیساتھ ریاست وہی مکروہ کردار ادا کررہا ہے لیکن یہاں وہ نام نہاد قوم پرست جو چاردیواری کی تقدس کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مکمل گنگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ خالی خولی مذمتوں سے اب نا ہی ریاست کو روکاجاسکتا ہے ناہی بلوچ قوم کے آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے بلکہ اس پر عملی کردار کی ضرورت ہے۔
آج بلوچ جدوجہد کی کامیاب تسلسل نے ریاست کو تھکا دیا ہے کیونکہ ریاست اجتماعی طور پر خستہ حال ہے، ریاستی ادارے اندرونی طور پر تصادم کاشکار ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بلوچ کیخلاف ریاست نہایت محرک ہے اور بلوچ قومی تنظیموں کو کسی صورت بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔
موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ جہدکاروں کو علاقائی کاسہ لیسوں کے حوالے سے سخت ترین فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ شہید درویش کے ادھورے مشن کو پورا کرنا ہوگا کیونکہ جب تک سماج کے اندر ایسے مجرم زندہ ہونگے وہ ریاست کی غلاظت کو پھیلاتے رہینگے اور ریاست کی دسترس چاردیواری تک آسانی سے پہنچ سکےگی۔ بلوچ قومی تنظیموں کو اس حوالے سے سخت پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
یہ جنگ جاری ہے اور جاری رہیگی، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عارضی واقعات وحالات اس جدوجہد کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ یقینآ تاریخ کے علم سے غافل ہے کیونکہ اسی جبر کے خلاف بلوچ جدوجہد اٹھی ہے اور یہ جبر جتنازیادہ ہوگا بلوچ مزاحمت بھی اتنی ہی مضبوطی اور پختگی سے نوآبادکار کا مقابلہ کریگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔