بلوچستان کے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنس (لمز) انتظامیہ کی جانب سے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حسین بخش مگسی کو طلبہ کی جانب سے منعقد کی جانیوالی لیکچر پروگرام میں حصہ لینے پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
لسبیلہ یونیورسٹی میں مذکورہ پروگرام دو روز قبل بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بی ایس اے سی) کی جانب سے منعقد کی گئی تھی، بی ایس اے سی طالب علموں کے حوالے سے ایک متحرک تنظیم ہے جو طالب علموں کی رہنمائی کے لیے بلوچستان و دیگر علاقوں میں مختلف پروگرام منعقد کرکے کام کررہی ہے۔
لسبیلہ یونیورسٹی رجسٹرار کی زیر دستخطی جاری ہونے والی شوکاز نوٹس میں پروفیسر حسین بخش مگسی سے بغیر اجازت منعقد کیے جانیوالے سیاسی پروگرام میں شرکت پر جواب طلب کی گئی ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ طالبعلموں کی علمی و تخلیقی سرگرمیوں میں شرکت کرنے پر اساتذہ کیخلاف تعصبانہ روش اختیار کرنا نہایت ہی افسوسناک ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں اساتذہ کو قوم کے معمار کے حیثیت سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہی وہ معلم ہیں جو نوجوان نسل کو شعور جیسے شمع سے آراستہ کر کے قوموں کے مستقبل کا ضامن بنا دیتی ہیں۔
خیال رہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم بلوچستان یونیورسٹی میں بھی گذشتہ دنوں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کی نوٹیفیکشن جاری کی گئی جس کے ردعمل میں طلبا و سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔
بی ایس اے سی ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ آج اگر بلوچستان کے تعلیمی نظام پر نظر دوڑائی جائے تو طالبعلموں کیساتھ اساتذہ کو بھی ایک گھیرے میں رکھے جانے کیلئے منظم طور پر سازشی اور گھناؤنے حرکتوں کا استعمال تسلسل کیساتھ جاری ہے۔طالبعلموں کے تربیتی نشستوں پر پابندی عائد کر کے اساتذہ کو اُن سے دور رہنے کے ہدایات کا اجرا اس بات کی عکاسی ہیں کہ طالبعلموں کی سیاسی، سماجی و معاشرتی نشونما میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبعلموں کی تربیتی نشستوں کو غیر انتظامی سرگرمی قرار دینا نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں سے دور رکھنے کے مترادف ہے۔ مُختلف جامعات میں طالبعلموں کیساتھ انتظامیہ کا یہ برتاؤ اداروں میں گُٹھن کی ایک ایسی فضا قائم کر رہی ہے جہاں طالبعلم مثبت سرگرمیاں جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔
پروفیسر حسین بخش مگسی کو نوٹس جاری کرنے پر طلبا تنظیموں، سیاسی و سماجی جماعتوں کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اس حوالے سے کہنا ہے کہ اساتذہ کو، جو مباحثے اور اجتماعات کا اصل مطلب جانتے ہیں، اب ایسے نوٹسوں کے ذریعے دھمکی دی جارہی ہے، انتظامیہ کا اپنے فیکلٹی ممبران کے ساتھ سلوک بلوچ طلباء کی سیاست کے بارے میں ان کے منفی ارادے کو ظاہر کرتی ہے۔
Teachers Who know real mean of Discussions & gatherings r being now threatened by such notices, this pressuring Behaviour of administration towards their feculty members s clearly showing negative intent of authorized people towards Baloch student politics. pic.twitter.com/8h6PlZrhzu
— BSO AZAD (@BSO__AZAD) December 6, 2019
ڈپٹی جنرل سیکرٹری بی ایس اے سی حاجی حیدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مابعد نوآبادیاتی نظام کے اثرات بلوچستان میں بلکل واضح طور پر دیکھائی دیتی ہے جس طرح آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ اسے پڑھتے ہوئے تمہیں تکلیف تو ہوگی مگر اسے لکھتے ہوئے کہی زیادہ اذیت مجھے ہوگی، ایک استاد کو صرف اس لیے شوکاز نوٹس جاری کرنا کہ وہ کیوں معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار انجام دے رہا ہے۔
مابعد نوآبادیاتی نظام کے اثرات بلوچستان میں بلکل واضح طور پر دیکھائی دیتی ہےجس طرح آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ اسے پڑھتے ہوئے تمہیں تکلیف تو ہوگی مگر اسے لکھتے ہوئے کہی ذیادہ اذیت مجھے ہوگی ایک استاد کو صرف اسلیئے شوکاز نوٹس جاری کرنا کہ وہ کیوں معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار انجام pic.twitter.com/HtfxSTtSxW
— Haji Haider (@Haidershowaz) December 6, 2019
بی ایس اے سی ترجمان کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے دائرہ کار میں ہونے والے طالبعلموں کی مثبت سرگرمیوں کے سراہے جانے کیساتھ ساتھ اُن کے فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذکورہ واقعے پر ہم لسبیلہ یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اساتذہ کے خلاف جاری ہونے والے نوٹس کو جلد از جلد واپس لیا جائے بصورت دیگر ہم اساتذہ کے تعلیمی مفادات کو مدنظر رکھ کر انتظامیہ کی غیر اخلاقی رویے اور تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف سخت احتجاج کرینگے۔