پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں وکلاء نے بدھ کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر اور باہر تشدد آمیز احتجاج کیا ہے، توڑ پھوڑ کی ہے اور ایک صوبائی وزیر سمیت متعدد افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے احتجاج کے دوران میں تین مریض بروقت ہنگامی طبی امداد نہ ملنے پرجان کی بازی ہار گئے ہیں۔
لاہور میں وکلاء بعض ڈاکٹروں کے مبیّنہ ناروا سلوک پر مشتعل ہوئے تھے اور انھوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر جمع ہوکر نعرے بازی شروع کردی۔ انھوں نے اپنے احتجاج کے دوران پولیس کی ایک گاڑی کو آگ لگا دی اور عام شہریوں کی متعدد کاروں کے شیشے توڑ دیے ہیں۔ انھوں نے بعض دکانوں میں بھی توڑ پھوڑ کی ہے اور علاقے میں دکانوں کو زبردستی بند کرادیا۔
صوبائی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے وکلاء کی ہنگامہ آرائی شروع ہونے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ ’’وفات پانے والے مریضوں میں ایک خاتون موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھی، ایک مریض سی سی یو3 وارڈ میں زیر علاج تھا اور ایک منگل سے ایمرجنسی وارڈ میں داخل تھا۔ اس کی حالت سنبھل رہی تھی لیکن وہ دل کا دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہار گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وکلاء نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بیرونی گیٹ کو بند کردیا تھا اور وہ ڈاکٹروں یا طبی عملہ کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ان مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا اوروہ بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جان سے گئے ہیں۔
لاہور میں پولیس نے وکلاء کے اس دنگا فساد کے کئی گھنٹے کے بعد دسیوں وکلاء کو بلووں کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے اور بند سڑکیں کھلوا دی ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبائی دارالحکومت میں امن وامان کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کی اضافی نفری طلب کرلی ہے۔
انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں اطلاع دی ہے کہ کل چالیس وکلاء کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ان کے ساتھ گرفتار کی گئی تین خاتون وکلاء کو بعد میں رہا کردیا گیا ہے۔
لاہور میں وکلاء مبیّنہ طور پر گذشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو پر مشتعل ہوئے تھے۔ اس میں ایک ڈاکٹر ایک گروپ کے سامنے وکلاء سے اپنے ایک ٹاکرے کی کہانی بیان کررہا تھا اور ویڈیو میں انھیں بتا رہا تھا کہ وکلاء کا ایک گروپ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) کے پاس گیا تھا اور ان پر زور دیا تھا کہ دو ڈاکٹروں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے لیکن آئی جی نے ایسے کرنے سے انکار کردیا تھا۔
وکلاء کی بڑی تعداد اس ’’تضحیک آمیز‘‘ ویڈیو کے خلاف احتجاج کے لیے آج امراض قلب کے اسپتال کے باہر جمع ہوئی تھی۔انھوں نے ابتدا میں اسپتال کے داخلی اور خارجی راستے بند کردیے اور ایمبولینس گاڑیوں میں لائے گئے مریضوں کو بھی اسپتال کے اندر لانے کی اجازت نہیں۔ انھوں نے طبی آلات کی توڑ پھوڑ کی۔
وکلاء نے میڈیا کارکنان اور صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کو بھی زدوکوب کیا۔ انھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں وکلاء کے تشدد کا نشانہ بنتے دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وکلاء نے انھیں اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ نجی ٹی وی ڈان نیوز کی رپورٹر کنزہ ملک بھی وکلاء کے تشدد سے زخمی ہوگئی ہیں اور ان کا موبائل فون چھین لیا گیا ہے۔
دریں اثناء نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم (ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن) نے اس پُر تشدد احتجاج کے بعد جمعرات کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ پنجاب بھر میں سرکاری اسپتالوں میں کوئی بھی کنسلٹنٹ اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے گا۔