لاشعوری یا لا علمی ۔ زبرین بلوچ

321

لاشعوری یا لا علمی

تحریر: زبرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج کل ڈیجیٹل ورلڈ کا دور ہے اور اس دور میں جب پتھر اور لوہے کے زمانے کی بات کریں تو لوگ کچھ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ کہیں کسی مرگ محفل میں بیٹھے ہو۔پچھلے اور موجودہ زمانے کا اگر موازنہ کریں تو ایسا لگتا ہے جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جارہی ہے ویسے ہے لاشعوری اور لا علمی بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔

موجودہ دور سائینس اور ٹیکنالوجی کا ہے اور اس دور میں جو بندہ سائینس اور ٹیکنالوجی سے اگر مستفید نہیں ہورہا ہے تو لوگ اس کو پتھر کے زمانے کاسمجھتے ہیں مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ پتھر کے زمانے سے ہے۔

آج کل اگر ہم نوجوان نسل کو دیکھتے ہیں اس ڈیجیٹل ورلڈ سے فائدہ لینے کے بجائے نقصان لے رہے ہیں اور اگر اس شخص کے ساتھ اگر آج کل کے نوجوان کا موازنہ کریں تو وہ شخص بہتر ہوگا جو پتھر کے زمانے کی سوچ والی ہے اس لئے کہ کم سے کم وہ ٹیکنالوجی سے ناواقف ہے فائدہ نہ صحیح مگر نقصان نہیں اٹھاتا۔

نئے دور کے نئے انسان جس کی پیشن گوئی گرو رجنیش نے کی تھی مگر آج کے جوان بالکل اس پیش گوئی سے مختلف نظر آرہے ہیں اس نئے دور میں نوجوانوں کو جو کام کرنا چاہئیے تھا وہ کام نہیں ہورہا اور یہ ٹیکنالوجی کو اگر ہم ماں کہتے ہیں مگر یہ ماں اگر اپنے بچوں کو فائدہ نہیں دے سکتا تو اسکا کیا فائدہ مگر اس چیز کو اگر تھوارا اندرونی دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ اس ماں سے بچے دودھ پینے کی زحمت نہیں کرتے براہوئی میں کہتے ہیں کہ ( چُنا ہوغو گُڑا لُمہ پال تیرو تہ) بچہ روئے گی تب مان دودھ پلائیگی۔

اس زمانے میں اگر مارکس ، لینن ، سارتر ، افلاطون ، ارسطو ، کی مثالیں دیتے ہیں اور انکے کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارکس ، لینن ، سارتر کے بعد دنیا میں باقی کچھ رہتا نہیں وہ اس طرح کہ انکے بعد فلسفے ، سیاست ، معاشیات اور وجودیت پر کوئی بھی نیا کام نہیں ملتا جب بھی بات کرے تو ان صاحبان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

میں اس چیز سے انکاری نہیں کہ ان لوگوں نے کام کیا ہے میں اس چیز کو دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہوں کہ اگر یہ لوگ کام کر گئے ہیں انکے مشن پہ کام کرنا چائیے آخر یہ لوگ کیا چاہتے تھے ؟ یہ لوگ پاگل تو نہیں تھے کہ اپنے پوری زندگی علم و فلسفے اور وجودیت پر وقف کرگئے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کا نوجوان نسل گرو رجنیش کے فلسفے پہ چلتے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج کا نوجوان سارتر کے وجودیت کے فلسفے پر بحث کرتا۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ مارکس کے طبقاتی نظام کے اوپر کام کرتے۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ارسطو کی فلسفہ پہ کچھ سوچتے۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ چی گویرا کے نقش قدم پہ چلتے۔ ہونا تو یہ چائیے تھا نیلسن منڈیلا کی فکر پر چلتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا سقراط کے زہر پینے کی وجہ تلاش کر لیتے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اسٹیفن ہاکنگ جیسے کام کرتے مگر آج کل کے دور میں نوجوان نسل ایسا کچھ نظر نہیں آتا اور تو اور علم و فلسفے کے لئے جن لوگوں نے کام کیا انکا نام تک سے لاعلم ہیں۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں علم و فلسفے کی کوئی قدر نہیں علم کی افادیت سے کوئی واقف نہیں ۔ وہ علم جس نے انسان کو زمین سے آسمان تک پہچا دیا جس نے چاند تک کا سفر کیا مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک شیشے میں جوتی نظر آتی ہے اور روڈ پر مٹی کے اوپر رکھے کتاب نظر آتے ہیں۔

اس جیسے معاشروں میں آج کا نوجوان نسل جو کردارادا کرسکتی ہے وہ اور کوئی نہیں کرسکتا سیاست، شعور کے لئے کام کرنے والے صرف نوجوان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ علم کی اہمیت اور قدر کو لوگوں تک پہنچانے میں جو کردار نوجوان ادا کرسکتا ہے وہ کوئی نہیں کرسکتا مگر بد قسمتی سے یہ چیزیں ہمیں یہاں نظر نہیں آتے اس کو میں لاشعوری کا نام دو یا لا علمی کا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔