قوم کا انمول موتی پروفیسر صالح محمد شاد
تحریر : امجد دھوار
دی بلوچستان پوسٹ
اس دنیا میں بے شمار شخصیات پیدا ہوئیں اور ہوتی رہیں گی لیکن وہ لوگ جو اپنی زندگی کے اعلیٰ ترین انسانی نقوش اپنی دوران زندگی ثبت کر جاتے ہیں، وہ امر رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت پروفیسر صالح محمد شاد کی ہے جو اعلیٰ انسان ہونے کے ساتھ ایک قابل، شفیق اور مہربان استاد بھی ہے انتہائی خوددار، بے لوث، ہمدرد و غمگسار اور دوستوں سے پکی دوستی نبھانے والے انسان ہیں۔
پروفیسر صالح محمد شاد صاحب یکم اپریل 1953 کو مستونگ میں پیدا ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم مولوی غلام سرور سے لی، آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول ولی خان مستونگ روڈ سے میٹرک کی اور 1971 میں گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ سے ایف اے اور 1973 میں گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1976ٰ میں بلوچستان یونیوسٹی کوئٹہ سے ایم اے اسلامیات میں ماسٹرز کی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ گورنمنٹ انٹر کالج قلات میں پرنسیل رہے اور اس کے بعد آپ گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ میں بھی پرنسپل رہے۔
میری ملاقات پروفیسر صالح محمد شاد سے تب ہوئی جب میں میٹرک پاس کرنے کے بعد 2011 میں گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ سے ایف ایس سی کرنے کیلئے داخلہ لیا، کالج میں وقت گذرتا گیا، کالج لائف سکول لائف سے بالکل ہی مختلف تھا، یہاں طلباء کو معلم کے پاس جانا پڑتا تھا، مگر پھر بھی آپ پورے کالج میں سارے اسٹاف سے علیحدہ تھے، آپ کے مخلصی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کے آپ پرنسپل ہونے کہ ساتھ ساتھ زیرو کلاسز بھی لیتے تھے، آپ کے کلاس میں بیٹھ کر ایسا لگتا تھا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی اس قوم کیلئے وقف کردی ہے، آپ کے لیکچر کا انداز ہی ایسا تھا کے کوئی بھی پہلی ہی کلاس میں آپ سے متاثر ہوتا تھا، آپ جیسے محسن اور خیر خواہ انمول موتی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
آپ مستونگ کیلئے ایک چراغ کے مانند ہیں کیونکہ آپ نے اپنے بچوں کی پرورش ایسے کی جنہیں دیکھ کر ہر کوئی ان کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہے۔
‛وحید’ آپ کا بیٹا تھا جسے لوگ ‘محترم’ کے نام سے بھی جانتے تھے، جسے دیکھ کر کوئی دور سے سمجھ لیتا کہ یہ واقعی میں ہی ‛محترم‛ پروفیسر صالح محمد شاد کا لخت ء جگر ہے، محترم کو پچپن ہی سے فٹبال اور کتابوں کا بہت ہی شوق تھا، محترم کالج اور یونیوسٹیوں سے بہت دور تھا مگر وہاں بھی اسے کتابیں پڑھنے کا بہت ہی شوق تھا، وہ ہر وقت کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتا تھا، ایسا لگتا تھا کے انہیں بھی شاد صاحب نے کتابوں سے عشق کرنا سکھایا تھا، وہ کسی سے زیادہ بات کرنے کے بجائے کتابوں کو ترجیح دیتا تھا ہر وقت کچھ نیا سیکھنے کے تلاش میں ہوتا تھا۔
شاد صاحب علمی دنیا کے ساتھ ساتھ شاعری اور ادب کی دنیا میں بھی بہت ہی بلند مقام پر فائز ہیں، آپ کا شمار براہوئی کے نامور شاعروں میں ہوتا ہے، براہوئی شاعری میں کوئی ایسا نام موجود نہیں جو آپ سے آشنا نہ ہو، گروک غزلیات , ہنین خرین , کلام شاد , اور شاعری کا مجموعہ چھاپ ہوا ہے۔ شاعری کہ ساتھ ساتھ حمد و نعت کہنے میں بھی آپ کی کوئی مثال نہیں اس کے ساتھ ساتھ آپ براہوئی اردو اور انگلش زبان میں ایک ڈکشنری پر بھی کام کر رہے ہیں، جو مستونگ سمیت بلوچستان بھر کیلئے قابل فخر ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔