فکر آجوئی میں جان قربان کرنے والے تین بھائی
تحریر: نوروز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں آزادی کی تحریک تو 1948 سے چل رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کبھی تحریک کمزور تو کبھی زبردست طریقے سے چلی ہے۔ بلوچ فرزندوں نے تحریک آزادی کیلئے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں اور دیتے آرہے ہیں، کوئی جیل زندانوں میں اذیتیں برداشت کر رہا ہے تو کوئی پہاڑوں میں بیٹھ کر قربانیاں دے رہے ہیں تو کسی نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا، ہر علاقے کے لوگوں نے قربانیاں دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں۔
آج ہمارا آرٹیکل نرمک کے تین شہید بھائیوں کے بارے میں ہے کہ کس طرح جنگ آزادی میں انہوں نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
نرمک ہمیشہ سے بلوچ سرمچاروں کا قلعہ رہا ہے، اس سرزمین پہ ایسے وطن زادوں نے جنم لیا ہے جو کہ ہر وقت، ہر لمحہ اپنے مادر وطن پہ جان نچھاور کرنے سے بھی کبھی نہیں کتراتے ہیں اور جب بھی مادروطن پہ کوئی یزیدیت نے ظلم برپا کیا ہے تو یہاں کے بلوچوں نے ہر وقت یزیدوں کے آگے ڈٹ کر انکا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
اس سرزمین پہ تین بھائی بھی رہتے تھے، جن کا نام کچھ اس طرح سے تھے، علی احمد، ظہور احمد اور شیر احمد جب پاکستان کی ظلم انتہاء کو پہنچتی ہے، ہر طرف ماں بہنوں کی چیخ و پکار، ہر طرف ماں بہنوں کی عزتوں پہ یزیدی لشکر کا بڑھتا ہوا ہاتھ، نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کرنے کا نا تھمنے والا سلسلہ، یہ دیکھ کر علی احمد اپنے مادروطن کا سپاہی بن کر ریاست سے ٹکرانے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ دشمن ریاست سے اپنے ماں بہنوں کی عزتیں بچایا جا سکے اور دشمن ریاست کو سبق سکھایا جاسکے۔
دن رات تحریک سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بار کو بھی چلانے کی زمہ داری انکے کندھوں پہ ہوتا ہے، اسکے باوجود کبھی بھی اپنے تنظیمی کاموں سے لاتعلقی یا بیزاری ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے ذاتی کاموں کو بھی چھوڑتا ہے، تنظیمی کاموں کیلئے بہت سے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد جب ایک دن شال ( کوئٹہ) آتا ہے اپنے رشتے داروں کے گھر میں ہوتا ہے رات کو ایف سی اور خفیہ ادارے ساتھ ملکر اسکو اغوا کرنے کے بعد شہید کر کے انکی لاش پھینکتے ہیں۔
اسکے بعد اپنے بھائی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور مادر وطن کی آزادی کی خاطر ظہور بلوچ اور شیرا بلوچ بھی وطن کا سپاہی بنکر اپنے شہید بھائی کے فلسفے کو آگے لیجانے کا عہد کرتے ہیں۔
انکا نرمک کے علاقے تخت میں ایک پرچون کا دوکان بھی ہوتا ہے، جو سنگتوں کو ہر وقت سامان مہیا کرتے ہیں اور علاقے میں تنظیم کے دوستوں کو ہر طرح سے مدد فراہم کرتے ہیں۔
شیرا دوکان بھی چلاتا ہے اور علاقے میں تنظیمی کام بھی بڑے مخلصی کے ساتھ سرانجام دیتا ہے اور تنظیم کے ایک سپاہی کو اپنا گہرا دوست بلکہ بھائی بنا لیتا ہے، جب بھی وہ سنگت اسکے دوکان آتا ہے تو اسکے ساتھ ہر بار ضد کر کے اسے کہتا ہے کہ آج ہمارے ساتھ روٹی کھاو لیکن تنظیمی کام اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ سنگت اسے ہر بار اگلی بار کا کہہ کر بات ٹال دیتا ہے اور بار بار سنگت شیرا کا ایک ہی جواب ہوتا ہے سنگت کے ٹالنے کے بعد کہ پتہ نہیں اگلی بار تک میں زندہ بھی رہونگا کہ نہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ارمان لیکر مجھے اس دنیا سے جانا پڑے اور سنگت اس کی یہ بات کو ہنسی مذاق میں گذارتا ہے ایک دن پاکستانی فوج ایک خونی آپریشن کا آغاز شروع کرتے ہیں، پورے علاقے کا گھیرا کرکے تمام تر راستوں کو سیل کرتے ہیں، اور اس آپریشن میں سب سے پہلے شہید شمس کے گھر کا گھیرا بندی کیا جاتا ہے اور شہید شمس کو سرینڈر کرنے کا کہتے ہیں کہ سرینڑر کرو ورنہ مارے جاؤگے تو شہید کا جواب ہوتا ہے میں تو ایک فکر لیکر اس مشن پہ نکلا ہوں نہ مجھے کسی قسم کا لالچ ہے نہ مجھے اپنی زندگی کی پرواہ ہے میں تو مر کر بھی زندہ رہونگا کیونکہ میرے ساتھ میرا فکر ہے اگر سرینڈر کرنا ہے تو تم لوگ کرو جو کہ قابض ہو اور ہمارے وطن کو لوٹ رہے ہو، یہ بات سننے کے بعد پاکستانی فوج اسکے ماں کے ہاتھ میں کلام پاک تھما کر انکو بیھجتے ہیں کہ شمس کو کہو سرینڈر کرے ہم اس کی زندگی بخش دینگے۔
جب اسکی ماں وہاں جاتی ہے تو شمس اس سے قران پاک باعزت طریقے سے لیکر اپنے جیب کے سارے پیسے قران پاک پر رکھ کر اسے رخصت کر کے قرآن پاک کو اپنے سینے سے لگاتا ہے اور اسے روانہ کرتا ہے۔
انہیں کیا پتاکہ شمس کے ساتھ تو اسکا فکر ہے، وہ کیسے سرینڈر کریگا، یہ بات قابض فوج نہیں جانتی نہ کے انہیں اسکا احساس ہے، انہیں نہیں پتا کہ جس کے پاس فکر ہوتا ہے، وہ اپنے مادر وطن کیلئے مر بھی سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے، جب شمس نے صاف انکار کیا تو اسکے کزن کو بھیجا گیا اور شمس بلوچ نے اسے بھی انکار کیا اور 2/3 گھنٹوں کی مسلسل لڑائی کے بعد آخر کار شمس بلوچ نے جام شہادت نوش کر کے تاریخ میں اپنے نام کا ایک باب رقم کیا۔
جب صبح پہلے شیرا اٹھتا ہے تو اسے شہید شمس کا پتہ چلتا ہے اور پاکستانی فوج کے خونی آپریشن کا بھی تو جلدی سے اپنا موٹرسائیکل سٹارٹ کر کے روانہ ہوتا ہے کہ سنگتوں کو جاکر انفارم کروں تو اس وقت پاکستانی فوج بھی شیرا کے گھر کے پاس پہنچ چکے ہوتے ہیں، وہاں پہ اسکو رکنے کا کہتے ہیں لیکن وہ نہیں روکتا تو پاکستانی اہلکار اس پہ فائرنگ کرنا شروع کرتے ہیں اور انکا دوسرا ٹیم پہنچ کر شیرا کو گرفتار کر لیتے ہیں اور گاؤں کے کچھ اور بھی بے گناہوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ قریبی پہاڑوں پہ لیکر جاتے ہیں اور انکے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں پہ پھٹی باندھ کر انکو وہاں پہ شہید کرتے ہیں۔
ان سب کو شہید کرنے کے بعد پاکستانی فوج پہاڑوں میں آپریشن شروع کر کے بی ایل اے کے وتاخ تک پہنچ جاتی ہے اور سنگتوں کا انکے ساتھ پورا دن جھڑپ رہتا ہے، پورے دن جھڑپ کے بعد آخر کار پاکستانی فوج کو پسپا کرتے ہیں اور فوج کو جانی اور مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
دو تین دنوں کے بعد جب سنگتوں کو سنگت شیرا کے شہید ہونے کا پتہ چلتا ہے تو سب افسوس کرتے ہیں اس سنگت کے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، جسے وہ اپنا بھائی کہتا تھا اور جسکا انکے ساتھ گہرا دوستی تھا، وہ سنگت جب انکے گھر پہنچتا ہے تو ظہور اسے دیکھ کر نم آنکھوں کے ساتھ گلے لگا کر رونے لگتا ہے اور اس سے یہ کہتا ہے کہ آج تو ہمارے ساتھ روٹی کھانا شہید یہی ارمان لیکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا، وہ سنگت بھی رونے لگتا ہے اور اس رات ظہور جان کے ساتھ رہ کر انکا دعوت کھاتا ہے اور صبح اس سے رخصت کرتا ہے۔
پھر ظہور کے کندھوں پہ سب زمہ داری آجاتا ہے وہ ہر وقت سنگتوں کے ساتھ انکے شانہ بشانہ ہو کر اپنا فکر کو آگے لے جانے کیلئے دن رات لگن کے ساتھ محنت کرتا ہے، اندھیری راتوں میں سنگتوں کو راشن پہنچانا ہو یا کوئی اور شہری کام ہو یا پہاڑوں پہ کوئی کام ظہور ہر کام انتہائی مخلصی کے ساتھ کرتا ہے۔
آخر ایک دن، ایک کام کے سلسلے میں منگچر جاتا ہے تو وہاں پہ اپنا ایک رشتہ دار دیکھتا ہے اسے چائے پلانے ہوٹل میں لے جاتا ہے تو پاکستانی اور خفیہ ادارے ہوٹل پہ چھاپہ مار کر ہوٹل کا گھیراؤ کرتے ہیں اور ان دونوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں کچھ وقت کے بعد اسکے رشتہ دار کو تو چھوڑتے ہیں لیکن ظہور جان کو زندانوں میں رکھتے ہیں اور کچھ وقت گذرنے کے بعد جب عید آتی ہے سب عید کی خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں، ظہور جان کے گھر والے انکے لیئے کپڑے سی کر رکھے ہوئے ہوتے ہیں، سب بہن بھائی رشتہ دار انکے گھر موجود ہوتے ہیں انکے گھر والوں کی نگاہیں ظہور کے واپسی کی راہ تک رہے ہوتے ہیں، کبھی وہ خوشی سے ہنس رہے ہوتے ہیں کہ ظہور جان آئیگا تو کبھی اپنے دو بھائیوں کی شہادت کو یاد کرکے رو رہے ہوتے ہیں کہ ایسا نہیں ظہور جان کو بھی شہید کر دے اور انکے رشتہ دار انکو دلاسہ دے رہے ہوتے ہیں کہ اتنے میں ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گھر پورے شہر بلکہ پورے علاقہ کو اپنے لپٹ میں لیکر سب کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیتا ہے۔
وہ خبر کیا تھی؟
ظہور جان کو درندے ریاست نے شہید کر دیا، انکو یہ گوارا نہیں کہ عید کی خوشیاں بھی ہم منا سکے، عید کے مبارک دن کی خوشیوں کو ہم پہ قہر بناکر برسایا اور سب ظہور جان کی جست خاکی لینے جاتے ہیں اور وطن کی سپاہی کی شہادت پہ سب کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے اور انکی قربانیوں پہ آج سب بلوچوں کو فخر ہے اور آج بھی جب بھی کوئی تخت کے قبرستان جاتا ہے تو سب سے پہلے مادر وطن کے تین شہید بھائیوں کے قبروں پہ ضرور جاتا ہے اور آج بھی انکا اور وطن کے ہزاروں شہید سپاہیوں کا مشن آزادی لیکر پوری قوم رواں دواں ہیں انشاء اللّٰه وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے شہیدوں کے ارمان پورا کرینگے اور انکے پاس جاکر انکو مبارک باد دینگے کہ ہم نے تمہارے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔