فکری فقدان، گلیمرائزیشن اور میرک بلوچ کی کھنچی گئی لیکر
تحریر: زبیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی سیاست ایک صدی کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی اپنی فکری و نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ قومی سیاست میں ارتقا پذیر رویوں کی کمی اور بہت سے شعبہ جات زندگی کو سیاست سے الگ تھلگ رکھنا، تنظیم اور ادارہ سازی جیسے رویوں کی کمی قابل ذکر ہیں۔
2000ء کے بعد بلوچ قومی سیاست میں بہت بڑی بریک تھرو آتی ہے، جس سے قومی سیاست ایک نئی شفٹ لیتی ہے، یہ شفٹ اپنی نوعیت میں غالباً پہلی تنظیمی شفٹ ہوتی ہے۔ جس سے بلوچ قومی سیاست پارلیمانی اور غیر پارلیمانی کے نام پر دو واضح بلاک میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یہ تقسیم بی ایس او کی تاریخ میں پہلی نظریاتی تقسیم ہے۔ جو بی ایس او کی سیاست اور اصل روح کو بحال کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ اس نظریاتی اور اصولی تقسیم کے بعد بلوچستان کے سیاست کے اندر بہت بڑی نظریاتی بحث نوجوانوں اوّر طلبا کے اندر اتر جاتی ہے، یہ بحث پارلیمنٹ اور نظریاتی سیاست کے گرد گھومتی تھی۔ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی کے اس بحث کے ایک طرف وہ نوجوان طلبا اور عوام تھے، جو بلوچ بلوچستان اور بلوچستان کے قسمت کے فیصلے کو ملکی آئین، قانون اور پارلیمنٹ کے ذریعے جدوجہد کر کے بدلنا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک نجات کا واحد ذریعہ پارلیمانی جمہوری طرز سیاست ہے۔ دوسری طرف وہ نوجوان طلبا اور عوام جو ایک نئی سوچ، فکر نظریہ اور طرز سیاست پر یقین رکھتے تھے، جن کے نزدیک پارلیمانی سیاست موقع پرستی، مفاد پرستی، قومی جدوجہد کے ساتھ مصلحت اور اس کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک رد انقلابی طریقہ سیاست اور آزمودہ تجربہ ہے، وہ اسے ناکام پریکٹس سمجھ کر غیر پارلیمانی لیکن مسلح جدوجہد کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ان دو مختلف نظریوں اور طرز سیاست کی رسا کشی سے بلوچ سیاست میں دوعشروں سے تصادم اور کشمکش کی فضا قائم ہے۔ یہ رسا کشی اور تصادم کی فضا پارلیمانی کی پارلیمانی ہم خیال جماعت کو روندھنے کی کشمکش ہے اور غیر پارلیمانی کی اپنے ہم خیال غیر پارلیمانی تنظیم کو روندھ کر ساری قوت اور کریڈٹ کا منبع بننے کی کشمکش اور تصادم ہے۔ یہ بل فائٹنگ نظریاتی بحث مباحثہ، تھسیز اینٹی تھسیز اور سنجیدہ سائنسی اصولوں سے زیادہ غیر علمی اور سیاسی رویوں کی بل فائٹنگ تصادم اور کشمکش ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں طبقہ فکر سنجیدہ علمی رویوں سائنسئ نظریاتی مکالموں اور فکری ناپختگی کے فقدان کے شکار ہیں ۔ اس علمی اور نظریاتی ناپختگی کی وجہ بلوچ تنظیموں، پارٹیوں میں ادارہ نام کی چیز نہ ہونا اور شخصی اجارہ داری ہے۔ شخصی اس چھاپ نے اداروں کی اہمیت کو ختم کرکے شخصیتوں کو پالنا شروع کردیا، جس کی وجہ سے آج بلوچ عوام کے دلوں میں ادارے سے زیادہ شخصیت مقدس ہونے لگی ہے۔
اس ناکامی تلخی کھنچاوُ اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں اسٹبلشمنٹ نے اپنے پنجے گاڑھنے شروع کیے۔ اسٹبلشمنٹ کے حامی جماعتوں نے اپنے لیے خلا بنایا، عوام دشمن قوتوں کی خلا بنانے سے بلوچستان میں انقلابی نظریاتی سیاست کے لیے خلا رہ گئی۔ انقلابی اور فکری نشستیں، حلقے، بحث اور مکالمے ختم ہوکر اپنی آپ موت مر گئے۔ اس فکری اور نظریاتی فقدان کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے سیاست میں متحرک عوامی قوتیں جو عوام کی طاقت پر بھروسہ کرتے تھے، عوام پر بھروسے کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی گود میں زیادہ خود کو پرسکون محسوس کرنے لگے۔ جس سے فکر نظریہ اور فکری سیاست معدوم ہوتی گئی۔ دوسری بلاک کو دیکھا جائے ان کی ناقص حکمت عملی، غلط موقعوں پر غلط فیصلہ سازی، نااہلی، علم و فکر سے عاری قیادت کی جدید دور کے ضرورتوں اور معروض کو سجھنے سے قاصر ہونا نرگسیت، اناپرستی، غرور، عوام سے خود کو بالا، سمجھنا، مخالفین کو زیر کرنا، جیسے رویے ان کی ناکامی، فرسٹریشن اور اسئیولیشن کے سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ایکسٹریم پوزیشن ہیں جس کو بلوچ عوام بھگت رہی ہے۔
دنیا بدل گئی ہے اور تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ سیاسی و معاشی قوتیں نئے رشتے بنا رہے ہیں۔ نئی نئی اتحاد بن رہے ہیں۔ ترکی اور اس کے اسلامی اتحاد، سعودی اور اس کا اسلامی اتحاد، یورپ اور اسے کے اتحادی، امریکہ، اسرائیل اور اس کے رشتے داریاں چائنا رشیا اور ہندوستان کو عالمی سیاست میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے اندر کی بے چینی جو ہڑتال اور احتجاجوں کی شکل میں آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایران، فرانس، ہندوستان، ہانگ کانگ میں انہی دنوں کی مسلسل عوامی احتجاجیں بہت بڑی تبدیلی کے لیے طبل جنگ ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر صحیح لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ پاکستان میں طلبا مزدور، ٹریڈ یونینز، اساتذہ اور ڈاکٹر اپنے مطالبات کے حق میں اور ظلم کے اس غیر منصفانہ نظام کے خلاف احتجاجوں اور مظاہروں میں لگے ہوئے ہیں۔
تبدیلی کو کسی سرحد کے اندر بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اثرات لامحالہ بلوچ وطن پر پڑتے رہیں گے۔ بلوچستان کے ایک نیم قبائلی اور نیم جاگیرداران سماج، جہاں ہر طرف بے علمی، جہالت، غربت، بے روزگاری، پسماندگی، بھوک، افلاس، ظلم، بربریت، استحصال اور نسل کشی کی ننگی ناچ ہر طرف جاری ہے۔ ایسے میں سیاسی گلیمرائزیشن کی کوئی بھی کوشش اجتماعی قومی نقصان کی سبب بنے گی یہ نقصان ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ بلوچ جہد میں فکری تحریک کے فیز کو ایک جست کے زریعے عبور کرنے کی کوشش میں بہت سارے گیپ خالی رہ گئے ہیں۔ جو فکری تحریک سے پر کیئے جاسکتے تھے۔ گلیمر اس فیز کے عبور نہ کرنے کی بیماری ہے جس سے آج بلوچ سیاست کے چوٹی کے سیاست دان شکار ہیں۔
گلیمرائزیشن کا کیف و خمار سو ولایتی دارو کے پیگ سے زیادہ بھاری ہوتی ہے، جو لندن، جینوا، کینڈا اور جرمنی کے دارو میں نہیں ۔ اس خماری میں بندہ اتنا جھومتا ہے جتنا پنجابی فلموں میں سلطان راہی بھی پی کے نہیں جھومتا ہوگا ۔ یہ ہر کسی کو ہضم نہیں ہوتی ۔ بہت سارے بلوچ زعماء اور اکابرین جو خود کو نجات دہندہ کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں اسی گلیمر کے گھوڑے میں سوار الوژن اور دھوکے کے شکار ہیں۔
فکری تحریکیں مکالمے، گفتگو، سیاسی نشستوں کی عدم موجودگی اور اس کی جگہ گلیمر فنٹسی سے پر کرنے کی کوششوں نے بلوچ قومی سیاست کے انقلابی کردار کو بہت زیادہ مسخ کرکے اس کے شکل کے خوبصورتی کو جو کسی زمانے میں خطے کا سب سے زیادہ خوبرو اور خوبصورت ترین تحریک تھی، بہت بد صورت بنا دیا ہے ۔ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے اس مجرمانہ گلیمرائزیشن کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت خطرناک ٹرینڈ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ نوجوان اس گلیمرائزڈ ٹرینڈ کو فالو کر رہے ہیں ۔ اور بڑی تیزی کے ساتھ بے ہودگی کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ اس بے ہودگی نے انقلابی جدوجہد کو ایک رومنس اور فلمی کہانی بنا دی ہے۔ یہ بے ہودگی اس حد تک قومی جدوجہد میں سرائیت کرچکی ہے کہ نوبت لکیر کھنچنے تک آگئی ہے۔ کچھ لوگ قومی سیاست کو ایک لکیر کے ذریعے بند دائرے میں بند کرکے اس کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ یہ بلوچ سیاست کا بہت خطرناک ترین دور ہے، جس نے ہزاروں نوجوانوں کی شہادتوں، جیل، زندانوں اوّر عقوبت خانوں کی قربانیوں کو اس حد تک پہنچایا کہ افتادگان خاک، عام بلوچ، مفلوک الحال عوام، غریب، بزگر، دہقان، شاعر، ادیب، لکھنے والے، پڑھانے والے استاد اور دریائے سندھ سے لیکر آبنائے ہرمز تک جڑے لاکھوں گمنام بلوچ سپاہی اور وطن کے بے لوث اور بے غرض سپوت جو لکیر کی ایک طرف اور دوسری طرف وہ مہاتما جو لکیر کھنچنے کو اپنی بڑی جیت سمجھتی ہے ۔ اور اپنے ساتھ کھڑے چند ایک ہم خیال بی ایس او آزاد اور بی این ایم۔
باپو جی!
افتادگان خاک کے بے لوث و غرض وطن کے ساتھ محبت، عشق اور اس کے قومی کردار و عمل سے انکار اور اس کو بے معنا و مطلب سمجھنا، ایک فاشسٹ سوچ کی عکاسی ہے ۔ فاشزم وہ نظریہ ہے جس سے مسولینی اور ہٹلر بہت متاثر تھے۔ کیا آج کی بلوچ قومی سیاست ہٹلر، مسولینی یا فاشزم کے متحمل ہوسکتی ہے۔ کیا آج کے سیاست کو محدود کرکے مطلوبہ ہدف اور منزل تک پہنچا جاسکتا ہے؟
محدودیت، سیاسی ارتقاء کو کوتا فہمی سے روکنے کی ایک کوشش ہوگی۔ اس طرح کی علمی کوتاہی، ناپختگی، عام بلوچ عوام، بزگر، شوان، دہقان اور پوریا گر، شاعر، ادیب، لکھنے والے، پڑھانے والوں، استادوں اور نوجوانوں کو بلوچ سیاست سے کاٹنا ان کو دشمن کے صف میں لاشعوری طور کھڑا کرتی ہے ۔ قومی تحریکیں عوام محنت کش مزدور پوریاگر، دہقان، نوجوان، َ شاعرَ، ادیب ،َ استاد اور دیگر مظلوم اقوام کے حمایت و تائید اور ان کے جڑت سے طاقت اور تقویت حاصل کرتے ہیں ۔ ان کو کاٹ کر اپنی ذاتی خواہشات کے تکمیل کرنے سے قومی یکجہتی اور قومی سیاست کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
دو عشروں پر محیط دو نظریاتی بلاک میں منقسم بلوچ قومی سیاست شدید ترین فکری فقدان کا شکار ہے۔ اس فکری فقدان سے پیدا ہونے والے بیماری نے غیر پارلیمانی بلاک کو ذاتی نمود نمائش خود غرضی نرگسیت اور سطحیت میں مبتلا کر رکھی ہے ۔اس نرگسیت نے کچھ لوگوں کو بلوچ قومی سیاست کے سالار بغیر تاج کے بادشاہ جیسے سوچ سوچنے کی موذی مرض میں مبتلا کر دیا ہے ۔
قومی تحریکیں قیادت کے متحاج نہیں ہوتے بلکہ یہ خود اپنے سالار کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہ سالار اس پروسیز سے گزر کر بنتے ہیں۔ جو تنظیمی، نظریاتی اور ایک مکمل انقلابی عمل ہوگا۔ جو صدیوں سے جاری غاصبانہ جبر و استبداد، سانحات، واقعات، محرومیوں کے تاریخی تسلسل، ساتھ ساتھ جابرانہ نظام، دائمی غلامی، قبضہ گیریت، معاشرتی نابرابری، قومی و طبقاتی استحصال، سامراجی غلامی کے پس منظر کے کوکھ سے جنم لیتی ہے۔
اگر کوئی تحریک، جدوجہد، کھٹن اور پرخار شاہراہوں سے گذرنے سے کتراتی ہے۔ تو وہ تحریک اور جدوجہد اس دیومالائی کہانی کے کردار کی طرح مر جاتی ہے، جو بہت زیادہ خود پسندی کا شکار تھا۔
دیومالائی کہانی کے کردار نارسس نے ایک دن پانی کے اندر اپنا عکس دیکھا اور وہ بالکل خود پر عاشق ہوگیا، رات دن اپنی عکس کو دیکھتا رہا بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے ہوئے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا ۔ چنانچہ پیاس سے نڈھال ہوکر مرگیا۔
اس طرح کی مہلک اور بیمار رویے اگر کسی تنظیم یا تحریک یا سیاست میں ہوں تو یہ رویہ اور بیماری اسے دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکلا کرکے بالاخر اسے دیومالائی کہانی کے کردار نارسس کی طرح مار دیتی ہے۔
اس طرح کا کمزور، لاغر، موقف، تنظیمی اور سیاسی پوزیشن، جو بی این ایم اور بی ایس او آزاد کو بلوچ راجی سیاست کا کل سمجھتی ہے ۔ لاکھوں افتادگان خاک اور عام آدمی کے قومی عمل اور کردار سے انکار اور قومی سیاست کو ایک چھوٹے سے کوزے میں بند کرنے کی کوشش ہے۔ اس طرح کے نرگسسیت پر مبنی نارسسٹ، فاشسٹ، کمزور، لائحہ عمل اور پروگرام پر نوم چومسکی کا یہ مشہور جملہ صادق آتی ہے۔ جنھوں نے عراق وار سے پہلے بش انتظامیہ کی طرف سے امریکی دانشوروں کو اپیل کے جواب میں کہی تھی، بش نے کہا تھا کہ “تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو” انھوں نے اس کے جواب میں کہاتھا کہ ُ ُ ہم تمھیں تمام امریکی عوام کی طرف سے بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔