ظلمت شب
تحریر: آزاد خان
دی بلوچستان پوسٹ
ظلم کی ایک سیاہ رات طاری ہے، بلوچستان میں خواتین، بچے، بوڑھے، جوانوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے، بلوچ قوم پر ظلم و بربریت کی انتہا ہو گئی ہے، ہر طرف لوگوں کو لاپتہ کیا جارہاہے، عزتوں کو داغ داغ کیا جارہاہے، چادر و چاردیواری کو پامال کیا جارہا ہے، گھروں کو آگ لگادیا جارہاہے، مزاحمت کرنے پر ذہنی اذیت دیا جاتاہے، تعلیم سے دور کیا جارہا ہے، ہر سہولتوں سے محروم کیا جارہا ہے، حق کی بات کرنے پر غداری کا مہر اور اسٹیمپ لگائے جاتے ہیں ۔ قوم دوستی کو اناپرستی اور انصاف کو گالی سمجھی جاتی ہے۔ یہ ہے ایک ایسے سماج کی کہانی جہاں ہر انسان پابند سلاسل ہے ۔ ایک کھلے زندان میں جی رہا ہے۔
ظلم کی انتہا اتنی ہوگئی ہے، کہ ہر طرف چیخ و پکار آتا ہو، اور ہر طرف ظلم ہی ظلم دکھتا ہو، لوگ دل کے آنسوؤں کو روک کر خود کو پتھر دل کر دیتے ہیں، کیوںکہ کبھی اپنیے بھائی کی مسخ شدہ لاشیں دیکھتے ہیں، تو کبھی اپنے ماں اور بہنوں کی عزت کو تار تار ہوتے دیکھتے ہیں۔ ہم کیسے اپنے فکرکو چھوڑ دیں، ہم کیسے اپنے ملک و قوم کا سودا کریں۔ ہم کیوں عدل اور انصاف کی جدوجہد کو ترک کریں۔
ہم کیسے وہ بہائے ہوئے خون کو بھول جائیں جو سرد راتوں میں ہو یا تپتی دھوپ میں، سامراج کے ظلم کے خلاف جنگ لڑتے ہوئےشہید ہوگئے ہیں۔ ہم کیسے ان جنگجوؤں اور ان شہیدوں کے خون کو فراموش کر سکتےہیں جنہوں نے اپنی جان تک قربان کردیا اپنی قوم وملک کی خاطر۔ مگر بلوچ کارواں کی شمع فروزاں کرنے والے آج بھی اپنے جان قربان کررہے ہیں،اور جو ساحل وسائل کا سودا کررے ہیں قوم و ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ قوم و ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں اور وطن سے محبت کے اس فطری جذبے کا احترام کرتے ہیں۔
ہم نے تو برسوں سے ایک ہی بات سن کر اپنے سوچ و فکر کو یہاں تک پہنچایاہے ۔ آپ ہمارے نظریہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ہم کیسے اپنے فکر کو چھوڑ دیں۔
خوف کا یہ عالم ہے اور اس حد تک عام آدمی کو دہشت کانشانہ بنایا جاتا ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے پر ہر دو کلومیٹر پر اپنی شناخت کرنا ہوتا ہے، گھٹنوں تک بیچ راہ پر ذلیل کیا جاتا ہے کہ آپ کون ہوں کہاں سے آرہے ہوں کیوں جارہا ہوں، مگر آسمانوں میں اڑتے ہوے پرندے، یہ پہاڑ اور آس پاس کی ویران جنگلوں کے درخت بھی میرے گواہی دیتے ہونگے کہ یہ اس سر زمین کا وراث ہے۔
1948 سے پہلے بلوچ قوم اپنی جدوجہد کو ہی دراصل کامیابی سمجھتے ہیں اور آج تک بلوچ کارواں کی شمع فروزاں کرنے والے اپنی کامیابی کو آجوئی سمجھتے ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ ہم کیسے خود کو اور اپنے وطن کو جلتے دیکھیں ، ہر طرف مایوسی، چیخ و پکار، درد کی لپیٹ اور بھوک و افلاس کا راج ہے۔
ہر طرح کی ظلم اور استحصالی نظام کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد اور منزل کی طرف ہرگام نجات اور آسودگی کی طرف مقدس سفر ہے۔ جو اس ظلمت شب کے پردہ کو چاک کرنے کا روژن ہوگا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔