صوبائی گورنمنٹ کے ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں – بی ایس اے سی

164

 خضدار صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے دس سالوں سے خضدار کی حالت انتہائی خراب رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات کی وجہ سے یہاں بہت سے مسائل درپیش ہیں اور خاص کر تعلیم کے شعبے میں۔ ہماری شروع دن سے ہی یہی کوشش اور جدوجہد رہی ہے کہ ہر فورم ہر علاقے کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور حکام بالا تک اپنی آواز پہنچائیں ۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر نواب بلوچ نے دیگر کے ہمراہ خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

بی ایس اے رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں 2013 سے لے کر آج تک تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نعروں کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ہے اسی لیے بلوچستان کے تعلیمی ادارے مسائل کے گڑھ بن چکے ہیں، خضدار جیسا صوبے کا دوسرا بڑا شہر جہاں تقریباً تمام بڑے تعلیمی ادارے موجود ہیں انجیئرنگ یونیورسٹی سے لے کر جھالاوان میڈیکل کالج، سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کیمپس، سکندر یونیورسٹی، بلوچستان ریزیڈنشل کالج جیسے ادارے موجود ہیں لیکن یہ تمام تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ اگر ہم انجیئرنگ یونیورسٹی کی طرف نظر دوڑائیں تو 1994 کو اسےانجئیرنگ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا لیکن آج بھی صرف چھ ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ چل رہی ہے اور پورے بلوچستان میں صرف دو کیمپسز منظور ہوئے ہیں لیکن ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ خضدار انجینئیرنگ یونیورسٹی کے تمام فیکلٹی اسٹاف میں ممبران کی کمی ہے اور یونیورسٹی میں ہر سال فیسیں بڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے طلبہ اپنی کیئریر کو جاری نہیں رکھ سکتے اور بہت سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: لسبیلہ یونیورسٹی میں لیکچر پروگرام میں حصہ لینے پر پروفیسر کو شوکاز نوٹس جاری

‏‎ان کا مزید کہنا تھا کہ سکندر یونیورسٹی کی منظوری کو سالوں کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن تاحال فنکشنل نہیں ہے۔ اس پورے ریجن میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے یہی ایک سکندر یونیورسٹی ہے کہ جو اس ریجن کے تمام تعلیمی پسماندگی میں کردار ادا کر سکتی ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل: لڑکیوں کی تعلیم کو نقصان دینے کی منظم کوشش ہے – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

بی ایس اے سی رہنماوں کا مزید کہنا تھا کہ جھالاوان میڈیکل کالج اساتذہ کی کمی کا شکار ہے اور اس کے ساتھ لیبارٹریز وغیرہ بھی پورے نہیں ہے حالیہ کچھ دنوں جھالاوان میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات نے بھی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بوائز ڈگری کالج و گرلز ڈگری کالج خضدار میں سائنس مضامین کے اساتذہ تک موجود نہیں ہیں۔ بوائز ڈگری کالج ہاسٹل کی کمی کا شکار ہے اور انٹر کالج وڈھ کے تعمیرات عرصہ ہونے کو ہے اب تک تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ انٹر کالج نال اساتذہ و کلاس رومز کی کمی کا شکار ہے اور انٹر کالج زہری سائنس اساتذہ کی کمی کا شکار ہے۔ اسی طرح خضدار کے مضافات میں موجود اسکول اساتذہ کی غیر حاضری کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر نواب کا کہنا تھا کہ ان تمام مسائل کو مد نظر رکھ کر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ صوبائی گورنمنٹ کے ترجیحات میں تعلیمی ادارے نہیں ہیں اور تعلیمی ایمرجنسی صرف نام کی حد تک موجودہ ہے کیونکہ اگر واقعی میں صوبائی گورنمنٹ اور ضلعی انتظامیہ تعلیمی جیسے ادارے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے تو اتنے بڑے مسائل کب حل کیے جا چکے ہوتے لیکن تعلیمی ایمرجنسی کو سات سال گزرنے کے باوجود مسائل جوں کے توں آج بھی موجود ہے لہٰذا ہم ضلعی انتظامیہ اور صوبائی گورنمنٹ کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ تعلیمی ایمرجنسی کو صرف کاغذات کی زینت نہ بنائے بلکہ صحیح طور پر تعلیم کے میدان میں انقلاب لائیں۔