نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کو ناقص کارکردگی کے بھینٹ چڑھا دیاہے۔ جام سرکار عوام کے مشکلات و پریشانیوں سے بے خبر حکومت میں مگن ہے۔
نیشنل پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں محکمہ صحت میں تعمیری اور اصلاحی اقدامات کئے۔صوبے میں 3 میڈیکل کالجز، بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا تاریخی عمل ہے صوبے بھر کے ہسپتالوں میں گائناکالوجسٹ، فزیشن اور چائلڈ اسپلشٹ فراہم کرکے زچہ وبچہ کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کیا گیا۔7000 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کی 20 سال بعد اور 3000 ایم این سی ایچ پروجیکٹ کے ملازمین کو مستقل کرنا کا سہرا بھی نیشنل پارٹی کو جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ نیشنل پارٹی کے دور سے قبل محکمہ صحت پسماندگی کا شکار تھا۔صوبے کے دور دراز علاقے اپنی جگہ سول ہسپتال اور بی ایم سی ایچ میں بھی ادویات ناپید،انسڑومنٹس کی قلت، ڈاکٹرز غیر حاضر اور گندگی کا ڈھیر لگا ہوا تھا لیکن نیشنل پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے ساتھ جدید مشینری اور اعلء انسڑومنٹس فراہم کئے۔
بی ایم سی ایچ میں کارڈیو یونٹ کی ازسر نو تشکیل کی گء۔سول ہسپتال کوئٹہ اور بی ایم سی ایچ میں انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی سہولتوں سے آراہستہ کیا گیا۔اور غریب مریضوں کو مفت دل کے وال (اسٹنٹس) فراہم کئے۔بیان میں کہا گیا کہ سول ہسپتال کوئٹہ میں نء اور جدید او پی ڈی بلاک اور ٹراما سینٹر کی تعمیر کو ممکن بنایا گیا اور ایکسرے مشینوں کی فعالی و فراہمی کے علاوہ آپریشن تھیٹرز کو مکمل طور پر فعال کیا گیا اور صفائی ستھرائی اور رنگ و روغن کرکے صاف ماحول بنایاگیا۔
پوسٹ گر یجویٹ انسٹیٹیوٹ کو 6 سال بعد دوبارہ فعال کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ بی ایم سی ہسپتال میں دلخراش خودکش دھماکے کے بعد ہسپتال کے متاثرہ حصوں کی تعمیر، ہاسٹل میں تعمیراتی کام اور لائٹس وغیرہ کی تنصیب کرائی گء۔فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کو فعال کرکے مریضوں کو سہولیات دیئے گئے۔ٹی بی کے مریضوں کو بہتر علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ خون کا حصول مریضوں کے لئے ہمیشہ پریشان کن مرحلہ رہا ہے۔اس پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر صحت نے ریجنل بلڈ بنک کا قیام عمل میں لایا جہاں اعلء میشنری کے بدولت بیک وقت 50 ہزار بلڈ بیگ رکھے جاسکتے ہے۔کڈنی سینٹر کو بااختیار ادارہ بنایا گیا اور کڈنی سینڑ میں کامیاب ٹرانسپلانٹیشن ہورہی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کولڈ ماڈل چین متعارف کئے گئے۔
جس میں ایک سال تک ویکسین رکھا جاسکتا ہے۔اس اہم سہولت سے بلوچستان محروم تھا۔صوبے کے تمام علاقوں میں بلاامتیاز ایمبولینسز۔ڈی ایچ اوز اور ہیلتھ سپروائزرز کو گاڑیاں اور ویکسینٹرز کو موٹر سائیکل فراہم کیے گئے۔بی ایچ یوز کو سولر سسٹم اور آئی ایل آر فریزر کو فراہم کئے گئے۔1200 کمیونٹی مڈوائف کو ٹرینگ سے آراہستہ کیا گیا اور برتھ سینڑ بنا کر محفوظ ڈلیوری کو یقینی بنانے کی کوشش کئے ء۔
بیان میں کہا گیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ایم این سی ایچ ورکرز کی مستقلی کے علاوہ 4000 سے زائد لوگوں کو میرٹ پر تعنیات کیا گیا۔تمام اضلاح کی درجہ بندی کرتے ہوئے A.B.C.D زون میں تقسیم کرکے ڈاکٹرز اور اسٹاف کو ہیلتھ پروفیشنل الائنس کا پیکج دیا گیا۔تاکہ عوام کو سہولت فراہم ہو۔بیان کے مطابق صوبے میں حفاظتی ٹیکہ جات کی مہم کو بہتر کرتے ہوئے %16 سے % 80 تک لایا گیا۔جو گذشتہ 20 سال بعد حاصل ہوا ہے ہیپاٹائٹس کو 15 سال بعد مکمل فعال کرتے ہوئے مریضوں کو مفت ادویات و ویکسین فراہم کیے گئے۔
بیان کے مطابق صوبے کے 15 اضلاع میں ڈائیلسزز یونٹ اور میشنری فراہم کئے گئے۔3 ڈویڑنوں میں ایڈز کنڑول پروگرام کے ذریعے مریضوں کو ٹریس اور مفت علاج کیا گیا۔کوئٹہ اور تربت میں سی ڈی فور (CD4) ٹیسٹ کے لئے میشنری فراہم کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ہیلتھ ڈیموگرافک کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان پہلی مرتبہ 2015 سے 2018 تک ماوں کے زچگی کے دوران اموات کی شرح دیگر صوبوں سے کم رہی جو کہ نیشنل پارٹی کی کارکردگی کا ثبوت ہے۔