دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 15 | آٹھواں باب – سن زوکی کتاب ”جنگی فن“ کا تاریخی پس منظر
ماؤزے تنگ نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ”درست خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ کیا وہ آسمان سے اترتے ہیں؟ کیا وہ خلقی یا ذاتی ہوتے ہیں؟ نہیں ایسے خیالات محض سماجی عمل کے دہرانے سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ تین قسم کے سماجی عمل جیسے کہ پیداوار کے لئے جدوجہد‘ طبقاتی ہلچل اور سائنسی تجربات سے پیدا ہوتے ہیں۔“
سن زو ”بہار اور خزاں“ کے آخری دور سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ وہ زمانہ تھا جب قدیم چینی سماج غلامی سے نکل کر جاگیرداری نظام میں داخل ہورہا تھا۔ یہ طبقاتی کشمکش کا دور تھا جس سے یہاں کے جنگی ماحول کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس زمانے سے کچھ عرصہ قبل چین کے پانچ ”بو“ یا نواب حکمران جیسے کہ کئے یان، جن وین، کن مو، چوچیانگ اور سونگ رنگ غلبہ حاصل کرنے کیلئے آپس میں گتھم گتھا تھے اور ساری سماجی اتھل پتھل انتشار کی شکل اختیار کرچکی تھی۔
”قدیم بہار اور خزاں“ کے تاریخی حوالوں کے مطابق چین کے 130 سے زائد چھوٹے ملک آپس میں لڑرہے تھے۔ ان لڑائیوں اور جنگوں کے نتیجے میں فقط پانچ حکمران جیسے کہ کی، جن، کن، جو اور سونگ ابھر کر سامنے آئے تھے‘ جن میں سے سونگ بہت کمزور تھا۔ ان پانچوں حکمرانوں میں سے ہر ایک، ایک دوسرے کو ختم کرنے میں مصروف عمل تھا اور ساتھ والے چھوٹے اور کمزور حکمران پر حملے کرکے اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے جدوجہد کررہا تھا۔ سن زو سے لگ بھگ دو سو سال قبل ان حکمرانوں کے درمیان لگ بھگ تین چار سو جنگیں ہو چکی تھیں‘ اس کے علاوہ وہ اس جنگی ماحول کی وجہ سے مختلف قسم کے جنگی فن ایجاد ہوئے۔ تاریخ نے سیاسی ہلچل کے ساتھ اقتصادی ہلچل بھی دیکھی جو تجارت اور دیگر ممالک کے اقتصادی وسائل پر قبضہ کرکے پیدا ہوچکی تھی۔ مختلف ممالک کے درمیان جنگوں کے باعث سفارتی عمل کا آغاز ہوا کیونکہ چھوٹے ممالک دفاع اورسیاسی اثرات بڑھانے کیلئے آپس میں اتحاد اور جوابی اتحاد بناتے تھے۔ سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ درحقیقت ان جنگوں کے تجربات کا نچوڑ تھی۔ اس لئے دو ہزار برس گزرجانے کے باوجود اس کی حیثیت امر ہے اور اس کے قائم کردہ کئی جنگی اصول آج بھی اہم ہیں۔
پڑھنے سے یوں لگے گا کہ سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ میں کئی خیال اور پیچیدہ باتیں موجود ہیں لیکن جب ہم سن زو سے قبل ہونے والی جنگوں کے احوال سے ان کا تقابل کرکے دیکھتے ہیں تو پھر وہ غیر واضح و پیچیدہ باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ اس کتاب کے مصنف کا یہ مقصد نہیں کہ سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ میں بیان ہونے والے ہر موقف کو کسی نہ کسی جنگی واقعہ سے ملایا جائے‘ اس جنگی ماہر کے مرکزی خیال کو سمجھانے کے لئے فقط ایک یا دو مثالیں کافی ہیں۔
صورتحال کا اندازہ لگانا
سن زوکی کتاب ”جنگی فن“ کا پہلا باب ”اندازوں“ سے متعلق ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ سے متعلق قائم کردہ اندازوں کا جنگ کے دوران کیا کردار ہوتا ہے۔ اگر ایسے تخمینے پیشگوئی کیلئے کسی مندر میں بنائے گئے ہیں تو پھر ان سے فتح کا یقین کرلینا چاہئے کیونکہ سوچ بچار سے لگائے گئے تخمینوں سے پتہ چل جائے گا کہ جنگی صورتحال آپ کے دشمن کے بجائے آپ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ایسے تخمینوں سے شکست کے آثار ملتے ہیں تو پھر یہ سمجھنا چاہئے کہ جنگ میں آپ کے فائدے اور اچھائی کی باتیں کم ہیں۔ اگر اچھی طرح سے سوچ بچار کرکے اندازے یا تخمینے نہیں لگائے گئے اور عقل و فہم سے کام نہیں لیا گیا تو پھر فتح کا یقین بھی کم ہی ہوتا ہے جو شخص جنگ کا اندازہ نہیں لگائے گا تو پھر اس کیلئے فتح کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں‘ اس سے یہ معلوم ہوگا کہ آدمی کو جنگ کے نتائج کا قبل از وقت ہی پتہ چل جاتا ہے۔ موجودہ دور میں جنگ سے متعلق ابتدائی تخمینے کا مطلب ہے جنگ سے قبل مختلف عناصر کا تجزیہ کرنے کے بعد ہائی کمانڈ کی طرف سے جنگ کیلئے کچھ فیصلے کرنا‘ اگر کسی شخص کو جنگ کی فتح کی امید نہیں ہوگی تو پھر وہ جنگ کے جھنجھٹ میں خوامخواہ پھنسنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے سے قبل سیاست سے وابستہ کئی باتوں میں فوجی تجربے سفارتکار اور جغرافیہ کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ ذیل میں دی گئی مثال سے اچھی طرح واضح ہوجائے گا کہ اندازوں اور تخمینوں کا مطلب کیا ہے۔
چینگ پو(CHENGPU)کی جنگ:
چینگ پو کی جنگ 632قبل مسیح میں بہار اور خزاں کے دور میں انتہائی بڑے پیمانے پر ہوئی تھی جس میں ”جن وین گونگ“ نے تمام ممالک پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اپنی جنگی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے ”جن“ گھرانے کا راج قائم کرنے کے بنیاد رکھی تھی جس نے دیگر ممالک پر کافی عرصے تک اپنی برتری قائم رکھی۔ جنگ سے قبل حکمران ”جن“ اور اس کے فوجی عملداروں نے اپنی قوت اور دشمن کی طاقت کو اچھی طرح پرکھ لیا تھا۔ ”چاؤ چیان“Zou Zhuanچین کی تاریخ کی ایک اہم کتاب ہے جس میں اس جنگ سے متعلق احوال اس طرح سے دیکھنے میں آتا ہے۔
”سردی کے موسم میں چوکی فوج نے سنگ کا جاکر گھیراؤ کرلیا اس پر سنگ کا حکمران گونگس گرو مدد کیلئے ”جن“ کی طرف چل کرگیا۔ ”جن“ بادشاہ کے کمانڈر مارشل ایکسیان زین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم ”سنگ“ کی مدد کرکے اس کا احسان اتارپائیں گے اور اس کے علاقے میں اپنی برتری بھی قائم کرپائیں گے۔
”جن“ حکمران کے دوسرے کمانڈر ”ہویئین“ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”زیادہ وقت نہیں گزراہے کہ ”چو“ کے حکمران نے ”چاؤ“ کے ملک کی مدد کی ہے جس کے ”وی“ کے ساتھ رشتے ناطے بھی ہیں۔ اگر ہم ”چاؤ“ اور ”وی“ پر حملہ کریں گے تو ”چو“ ضرور آکر ان کی مدد کرے گا۔ یوں ”سنگ“ اور ”کی“ اس کے قائم کردہ سنگ کے گھیرے سے آزاد ہوجائیں گے ”جن“ کے حکمران جن وین گونگ نے ان دونوں جرنیلوں کے مشورے پر عمل کیا۔
آنے والے چیت کی رت میں ”جن“ کمک لے کر چاؤ اور ”وی“ پر حملہ آور ہوا اور انہیں شکست دے دی لیکن ”چو“ کے سب سے بڑے کمانڈر نے زی یو کے ”سنگ“ پر حملے جاری رہے اور ”چاؤ“ اور ”وی“ کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ ”جن“ کو توقع تھی کہ وہ سنگ پر ہونے والے حملے سے دستبردار ہوکر ”چاؤ“ اور ”وی“ کی مدد کیلئے ضرور آئے گا اس پر ”سنگ“ کے حکمران مئن یان کو ”جن“ کی طرف ہنگامی امداد کیلئے روانہ کردیا۔
بحث ومباحثے کے دوران جن وین گونگ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرہم ”سنگ“ کی مدد نہیں کریں گے تو وہ ہماری طرف داری چھوڑدے گا۔اگر”چو“صلح پر راضی نہیں ہوتا تو ہم اس کے خلاف جنگ کا اعلان کریں گے‘ اس صورتحال میں ہمیں ”کی“ اور ”کن“ کی مدد حاصل کرنی پڑے گی لیکن اگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس لئے ایکسیان زین نے کہا کہ اس کیلئے بہتر مشورہ یہ ہے کہ ”سنگ“ کو ہماری طرف مدد کیلئے نہیں آنا چاہئے البتہ خراج کے طورپر بڑی رقم ”کی“ اور ”کن“ کے حکمرانوں کو دے اور ان سے گزارش کرے کہ وہ ”چو“ اور ان کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ’چاؤ‘ اور ”وی“ ملکوں کے حکمران ہمارے جنگی قیدی ہیں جنہیں ہم مجبور کریں گے کہ وہ اپنے علاقوں کے کچھ حصے سنگ کے حکمرانوں کو دیں ”چو“ ان دونوں ملکوں کا قریبی ساتھی ہے جو ایسا نہ کرنے پر چڑجائے گا اور صلح نہ کرنے پر بضد ہوگا۔ دوسری طرف ’سنگ‘ کے خراج دینے کے باعث ”کی“ اور ”کن“ کے حکمران اس کی مدد پر راضی نہیں ہوں گے اور ”چو“ کی ضد کی وجہ سے اس پر سیخ پاہوں گے اور ”چو“ پر حملہ کردیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔